ترک ماہرین غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ڈھونڈنے میں مدد دیں گے: ترکی

ترکی کی قدرتی آفات سے نمٹنے والی ایجنسی کے 81 اہلکاروں پر مشتمل ٹیم پہلے ہی غزہ پہنچ گئی ہے۔

14 اکتوبر 2025 کو غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ اٹھایا جا رہا ہے (اے ایف پی)

ترکی نے غزہ میں تاحال لاپتہ اسرائیلی قیدیوں کی باقیات کی تلاش کے لیے آفات سے نمٹے والے درجنوں ماہرین تعینات کر دیے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے جمعرات کو کہا کہ وہ ’تمام قیدیوں کی لاشیں وطن واپس لائیں گے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے آخری 20 زندہ یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا، اور کہا کہ جن قیدیوں کی لاشوں تک اس کی رسائی تھی وہ سب واپس کر دی گئی ہیں۔

اسی جنگ بندی کے نتیجے میں سات اکتوبر 2023 کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ بھی دو برس تک غزہ میں بمباری اور بھوک اور قیدیوں کے اہلِ خانہ کی اذیت کے بعد رک گئی۔

اب بھی 19 قیدیوں کی باقیات لاپتہ ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ کے ملبے سے نکالنے کے لیے خصوصی ریکوری آلات درکار ہوں گے۔

ترک وزارتِ دفاع کے ذرائع نے جمعرات کو بتایا کہ ’وہاں پہلے ہی اے ایف اے ڈی (ترکی کی آفات سے نمٹنے والی ایجنسی) کے 81 اہلکاروں پر مشتمل ٹیم موجود ہے،‘ اور اشارہ دیا کہ ’ایک ٹیم کی ذمہ داری لاشوں کی تلاش اور برآمدگی ہو گی۔‘

سات اکتوبر کے حملے کی دوسری برسی کے موقعے پر ایک سرکاری تقریب میں نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ’تمام قیدیوں کی واپسی یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔‘ انہوں نے کہا، ‘جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن ایک بات واضح ہے: جو ہم پر ہاتھ ڈالے گا وہ جانتا ہے کہ اسے بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل یرغمالیوں کی واپسی کے لیے سرگرم ایک اسرائیلی گروہ نے مطالبہ کیا کہ اگر حماس باقی لاشیں واپس نہیں کرتی تو حکومت جنگ بندی کے اگلے مراحل نافذ کرنے میں تاخیر کرے۔ جنگ کے دوران ’ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم‘ مسلسل مطالبہ کرتا رہا کہ 2023 کے حملے میں اٹھائے گئے افراد کی واپسی کے لیے لڑائی ختم کی جائے۔ فورم نے کہا، ’جب تک حماس معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی رہے اور 19 یرغمالیوں کو روکے رکھے، اسرائیل کی طرف سے یکطرفہ پیش رفت ممکن نہیں۔‘

مکمل شکست

فورم نے حکومت پر زور دیا کہ ’جب تک حماس تمام یرغمالیوں اور مرنے والوں کی باقیات کی واپسی سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی رہے، معاہدے کے کسی بھی مزید مرحلے پر عمل درآمد فوراً روک دیا جائے۔‘

ٹرمپ کے غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبے کے مطابق جنگ بندی کے آئندہ مراحل میں حماس کی غیر مسلحی، ہتھیار ڈالنے والے حماس رہنماؤں کو عام معافی کی پیشکش، اور جنگ کے بعد کے غزہ کے نظمِ حکمرانی کا قیام شامل ہونا چاہیے۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کٹس نے بدھ کو خبردار کیا کہ اگر حماس لاشیں واپس نہ کرے تو اسرائیل ’لڑائی دوبارہ شروع کرے گا اور حماس کی مکمل شکست، غزہ میں زمینی حقیقت کی تبدیلی اور جنگ کے تمام مقاصد کے حصول‘ کے لیے اقدام کرے گا۔

لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو محفوظ رکھنے کے لیے صبر کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی باقیات کی تلاش کے حوالے سے کہا، ’یہ ایک ہولناک عمل ہے، مجھے اس پر بات کرنا بھی اچھا نہیں لگتا، مگر وہ کھدائی کر رہے ہیں، واقعی کھدائی کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ’ایسے علاقے ہیں جہاں وہ کھدائی کر رہے ہیں اور وہاں انہیں بہت سی لاشیں مل رہی ہیں۔ اور ان میں سے بعض لاشیں بہت عرصے سے وہاں موجود ہیں، اور کچھ ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔‘

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل نے جمعرات کو 30 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ کے حوالے کر دیں۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت ہر مرنے والے اسرائیلی کے بدلے اسرائیل کو 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کرنا تھیں۔

غزہ کے بہت سے لوگوں کے لیے بمباری رکنے سے راحت تو ملی، مگر تباہی کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے بحالی کا راستہ تقریباً ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ جنگ بندی کے بعد غزہ شہر لوٹنے والے مصطفیٰ مہرّم نے کہا، ’پانی نہیں ہے، صاف پانی نہیں، یہاں تک کہ کھارا پانی بھی نہیں، بالکل پانی نہیں۔ زندگی کی بنیادی ضروریات موجود نہیں، نہ کھانا، نہ پینا، کچھ بھی نہیں۔ اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، چاروں طرف صرف ملبہ ہے۔‘ انہوں نے کہا، ’پورا شہر تباہ ہو گیا ہے۔‘

حماس کے زیرِ انتظام اس علاقے کی وزارتِ صحت کے مطابق اس جنگ میں غزہ میں کم از کم 67,967 افراد جان سے گئے، ان اعداد و شمار کو اقوامِ متحدہ معتبر سمجھتی ہے۔ یہ ڈیٹا عام شہریوں اور لڑاکوں میں تفریق نہیں کرتا، مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرنے والوں میں نصف سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔

سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے تخمینے کے مطابق حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے میں 1,221 افراد کے مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا