آپ میں اور ٹرول میں ایک سیلفی کی دیر ہے: ماہرہ خان

پاکستان میں شوبز کی دنیا کے چند بڑے ناموں میں سے ایک ماہرہ خان نے اداکاری کے ساتھ ساتھ پروڈیوسر بن کر کیمرے کے پیچھے کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

پاکستان میں شوبز کی دنیا کے چند بڑے ناموں میں سے ایک ماہرہ خان نے اداکاری کے ساتھ ساتھ پروڈیوسر بن کر کیمرے کے پیچھے کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

’سول فرائی‘ نینا کاشف اور ماہرہ خان کا مشترکہ پروڈکشن ہاؤس ہے جو اب تک ایک ٹیلی فلم اور ویب سیریز تخلیق کرچکا ہے۔ ’سول فرائی‘ کے بینر تلے کرکٹ کے موضوع پر پاکستان کی پہلی ویب سیریز ایک مقامی سٹریمنگ پلیٹ فارم ’ٹیپ میڈ‘ کے لیے تیار کی گئی ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ وہ کئی سال سے پروڈکشن میں آنا چاہ رہی تھیں۔

ماہرہ خان کا پروڈکشن کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’یہ ایک تخلیقی عمل ہوتا ہے جس میں اداکاروں، لکھاری، ہدایتکار ان سب کے ساتھ مل کر ایک چیز تخلیق کی جاتی ہے۔‘

پہلی ویب سیریز کرکٹ پر بنانے کے بارے میں ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ اگر صرف ان کی مرضی ہوتی تو وہ کوئی ناچ گانے والی فلم تخلیق کرتیں، جیسے کسی چھوٹے شہر میں کوئی لڑکا ہے، وہ گلوکار یا ڈانسر ہے، کچھ اس طرح کی کہانی ہوتی۔

’لیکن کیونکہ یہ سٹریمنگ ایپ کے لیے تھی اور وہ بنیادی طور پر ایک سپورٹس کا پلیٹ فارم ہے، اس لیے سپورٹس سیریز بنانے کو ترجیح دی گئی، مگر تب بھی میں گومگو کی کیفیت میں تھی، لیکن جب سکرپٹ پڑھا تو ارادہ کر لیا کہ یہ تو کرنا ہی ہے۔‘

’بارہواں کھلاڑی ‘ماہرہ خان کے پروڈکشن ہاؤس ’سول فرائی ‘کی پہلی تخلیق ہے۔ اپنی پہلی تخلیق کے لیے انہوں نے ایک ایسی سٹریمنگ ایپ کا انتخاب کیوں کیا جو فلم یا ویب سیریز کے لیے جانی ہی نہیں جاتی۔

اس ضمن میں ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ رسک تو لینا پڑتا ہے اور رسک لے کر ہی کامیابی کا مزہ آتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سیریز کے بعد یہ ایپ فلم اور ویب سیریز کے لیے بھی جانی جائے گی۔

ماہرہ خان سے توقع تھی کہ وہ ان موضوعات کا انتخاب کریں گی جن میں خواتین مرکزی کردار میں ہوں لیکن یہ سیریز تو لڑکوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں ماہرہ خان نے کہا کہ ان کے لیے مقصد کا حصول زیادہ اہم ہے۔ ’میں منزل کو زیادہ اہمیت دیتی ہوں، یہ ابتدا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ضروری یہ ہے کہ جب ہم لڑکوں کی بھی کہانی دکھائیں تو مثبت سوچ دکھائیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم پروگریسیو اور فیمینسٹ کو خواتین کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے، ہمیں اتحادیوں کی ضرورت پڑتی ہے، جب ہم با اختیار نہیں تو ہمیں بااختیار مردوں کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اہم یہ ہے کہ جب آپ بارہواں کھلاڑی دیکھیں تو آپ کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ یہ اس نے کیا بنایا ہے، اس میں منفی سوچ ہے، اور میری بنائی ہوئی کسی بھی پروڈکشن میں آپ کبھی بھی ریگریسو سوچ نہیں دیکھیں گے۔‘

ماہرہ خان نے بتایا کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے سیریز کو بنانے میں کافی مشکلات پیش آئیں۔

’سب سے پہلے تو مجھے خود کرونا ہوگیا، میں لاہور جا رہی تھی اور مجھے کرونا ہو گیا، لیکن اس دوران میں نے اس وقت کا استعمال کیا اور سکرپٹ پر کافی کام کر لیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی بیمار ہو جاتا تھا تو مشکل ہوتی تھی کیونکہ سارا کام ہی رک جاتا تھا۔

ماہرہ خان نے کہا کہ اس سیریز میں ان کا مختصر سا کردار بھی نہیں ہے، اگر کوئی کردار ہوتا جس کی ضرورت ہوتی تو وہ کرلیتیں۔

’ایک دو سین میں نینا نے مجھے کافی زور دے کر کہا کہ ایک جھلک دکھا دو لیکن مجھے لگا میرا کام ہی نہیں ہے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر شوبز کی خواتین، خاص کر ان کے لباس پر کی جانے والی شدید نکتہ چینی کے بارے میں ماہرہ خان نے کہا کہ اب وہ اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتیں۔

’آپ یقین کریں کہ اب مجھے اس کی کوئی فکر نہیں کہ کوئی میرے بارے میں کیا کہتا ہے، اور اگر وہ لوگ ابھی میرے سامنے یہاں ہوں تو وہ مجھ سے ایک سیلفی مانگ رہے ہوں گے۔ تو آپ میں اور ٹرول میں ایک سیلفی ہی کی دیر ہے، سچ میں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم