ہاؤس آف کارڈز

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کو بطور حکومت اور سیاسی جماعت پہلی بار اپنی بقا کی جنگ درپیش ہے۔ دیگر دو سیاسی جماعتیں تو بارہا اس بھَٹّی میں پک کر سخت جان ہو چکی ہیں اور نظام میں سروائیو کرنے کا گُر بخوبی جانتی ہیں۔

پی ڈی ایم نے رواں ہفتے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں 11نومبر کی  تاریخ دی تھی جو بعد میں موخر کردی گئی ہے(فائل تصویر: اے ایف پی)

موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی اسلام آباد میں ہواؤں کا رُخ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ کچھ دنوں سے فضا میں گرمی سی محسوس ہوتی پائی جاتی ہے۔ کوئی وقت گزرے گا کہ یہ لُو کے تھپیڑوں میں بھی تبدیل ہو جائے گی لیکن تب تک یہ ہوائیں نہ جانے اپنے ساتھ کیا کچھ اڑا کر لے جا چکی ہوں گی۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کو بطور حکومت اور سیاسی جماعت پہلی بار اپنی بقا کی جنگ درپیش ہے۔ دیگر دو سیاسی جماعتیں تو بارہا اس بھَٹّی میں پک کر سخت جان ہو چکی ہیں اور نظام میں سروائیو کرنے کا گُر بخوبی جانتی ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے لیے یہ سب نیا ہے۔

لیکن عمران خان نے نہ تو بھٹو کی طرح فی الحال سیاست میں قربانی کی کوئی ایسی معراج حاصل کی ہے جو ان کے سیاسی کیریئر کی ڈھال بن سکے نہ ہی شریف خاندان کی طرح کارکردگی کی بنیاد پر کوئی ایسی فصیل تعمیر کی ہے جو ان کی طویل مدتی حفاظت کی ضامن ٹھہر سکے۔

دوسری جانب بہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر سیاسی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود، جولچک پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں پائی جاتی ہے، فی الوقت تحریکِ انصاف اس سیاسی صفت کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب نظرنہیں آتی۔

بقا کی اس جنگ میں نظر تو یہی آتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان چومکھی لڑائی لڑنے کے موڈ میں ہیں اور اپنی فطرتاً روایتی اور کپتانی کے زمانے کی جارحیت کو اپنا اصل اور واحد ہتھیار مانتے ہوئے بیک وقت کئی محاذ کھول چکے ہیں جبکہ ساتھ ہی انہیں یقین بھی ہے کہ تمام محاذوں پر حتمی کامیابی انہیں ہی حاصل ہو گی۔

اسے دلیری کہا جائے یا بہادری کی باریک لکیرکے اُس پار حماقت کی بارڈر لائن پر خودکُش حملے سے تعبیر کیا جائے کہ لڑائی کے میدان میں خان صاحب اُس فریق کو بھی اپنے مدمقابل لے آئے ہیں جن پتھروں نے بقول شاعر کبھی ان کو بھی اپنا خدا بنا رکھا تھا۔

غور طلب سوال تو یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان جس نظام کے پروردہ ہیں کیا اسی طاقت کے مدار سے باہر نکل کر اپنا توازن برقرار رکھ پائیں گے یا بےکراں خلا میں گردوں کے ٹوٹے ہوئے تارے کی مانند کہیں کھو جائیں گے؟

موجودہ سیاسی حالات میں جس تیزی کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے یہ کہنا تو انتہائی دشوار ہے کہ آئندہ چند دنوں میں کیا ہو گا کیوں کہ لمحہ بہ لمحہ معاملات انتہائی برق رفتاری کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ہر گزرتے پل کے ساتھ فی الحال تو وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لیے آپشنز انتہائی قلیل نظر آ رہے ہیں اور کوئی معجزہ ہی ہو جو خان حکومت کو عدم اعتماد کے نوشتۂ دیوار سے محفوظ رکھ سکے۔

درونِ خانہ، خان صاحب کو بھی اس نتیجے سے بخوبی آگاہی دی جا چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قوم کو ایک بار پھر کپتان وزیراعظم کے روپ میں کم اور اپوزیشن رہنما کے بہروپ میں زیادہ نظر آنے لگا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی چوک پر جلسہ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وقت آنے پر سٹریٹ پاور کا مظاہرہ بھی دکھا دیا جائے اور ضرورت درپیش ہونے پر اس پریشر کا کوئی بھی استعمال یقینی بنایا جا سکے۔

سڑکوں پر آنے اور خطرناک ہونے کی وارننگ یا دھمکی تو پہلے ہی دی جاچکی ہے لیکن نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ تیار کرنے کی پلاننگ بھی مکمل ریڈی ہو چکی ہے۔

عدم اعتماد کے کامیاب ہو جانے کی صورت میں ایک بڑا بحران درپیش ہوسکتا ہے جو نظام کی بقا کے لیے ایک بڑے خطرے میں بھی ڈھل سکتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر فریق اس کے لیے اپنی اپنی الگا لگ تیاری کرکے رکھے ہوئے ہے لیکن انتظار محض اس بات کا ہوگا کہ تاش کے پتّوں کے گھر کا پہلا پتّا کون ہلائے گا۔

کم لکھے کوبہت جانا جائے کیوں کہ آنے والے دن انتہائی سنگین نتائج کے حامل بھی ہو سکتے ہیں اس لیے لازم ہے کہ آئندہ چند دنوں میں تمام فریق تحمل اور جمہوری برداشت و بردباری کے رویے کو اپنائیں اور عدم اعتماد کی تحریک کا جو بھی نتیجہ نکلے اسے قبول کیا جائےاور رزلٹ آنے کے بعد کے طوفان سے نظام کے بچاؤ کا بندوبست یقینی بنائے رکھا جائے کیوں کہ ہر فریق کی بقا نظام کی بقا سے ہی جُڑی ہے وگرنہ ہاؤس آف کارڈز کی طرح ہر ایک کے پَتّے ہوا میں ہی بکھر کر رہ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ