میزائل حملوں کا ہدف اسرائیلی مرکز تھا:ایرانی پاسداران انقلاب

عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے اتوار کو اربیل پر میزائل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز تحقیقات کریں گی اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔

اتوار کی صبح عراق کے خود مختار علاقے کردستان میں واقع مقامی ٹی وی سٹیشن کردستان24 کی عمارت میں میزائل حملے کے بعد نقصان کا منظر۔ یہ دفتر امریکی قونصل خانے کے پاس ہی واقع ہے جو ان حملوں کا اصل ہدف تھی (تصویر: کردستان 24)

ایران کے پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ انہوں نے عراق کے خودمختار علاقے کردستان کے شہر اربیل میں اسرائیلی ’سٹریٹجک مرکز‘ کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اس قبل کرد حکام نےبھی سرحد پار سے میزائل چلائے جانے کی تصدیق کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاسداران انقلاب کی سرکاری ویب سائٹ سپاہ نیوز پر جاری بیان کے مطابق: ’صہیونیوں کی شرارتوں اور سازش کے سٹریٹجک مرکز کو پاسداران انقلاب کی طرف سے چلائے گئے طاقتور میزائلوں سے ہدف بنایا گیا۔‘

ادھر کرد سکیورٹی فورسز نے بتایا کہ اتوار کو عراق کے باہر سے داغے گئے ’12 بیلسٹک میزائلوں‘ نے شمالی عراق کے خود مختار علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل اور وہاں موجود امریکی قونصل خانے کو نشانہ بنایا ہے۔

قبل ازیں امریکی حکام نے بھی امریکی خبررساں ادارے اے پی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’میزائل ایران سے فائر کیے گئے تھے۔‘

امریکی حکام کے مطابق میزائل حملوں کا نشانہ قونصلیٹ کی عمارت تھی جو کہ نئی تعمیر کی گئی ہے اور فی الحال خالی تھی۔

تاہم کردستان کے غیر ملکی میڈیا کے دفتر سربراہ لواک غفاری کا کہنا ہے کہ کسی میزائلوں نے امریکی قونصلیٹ کی عمارت کو نشانہ نہیں بنایا ہے البتہ اس کے اطراف کے علاقے اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے اتوار کو اربیل پر میزائل حملوں کی مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ جس جارحیت نے عزیز شہر اربیل کو نشانہ بنایا اور وہاں کے باشندوں میں خوف وہراس پھیلایا وہ ہمارے عوام کی سلامتی پر حملہ ہے۔‘

عراقی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے حالیہ صورتحال پر کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ ’ہماری سکیورٹی فورسز اس معاملے کی تحقیقات کریں گی اور اپنے شہریوں کے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے کے آگے ان کی ڈھال بنیں گی۔‘

اس سے قبل با اثر عراقی رہنما اور مبلغ مقتدیٰ الصدر نہ بھی ان حملوں کی مدمت کی ہے۔

فراسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کردستان کے انسداد دہشت گردی یونٹ کی طرف سے جاری کی جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’میزائل عراق اور کردستان کی سرحدوں کے باہر سے داغے گئے، لگتا ہے کہ مشرق کی جانب سے۔‘

ان حملوں میں تاحال کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہویی ہے۔

عراقی خبر رساں ادارے آئی این اے نے گورنر اومد خوشنو کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے تصدیق کی کہ ’کئی میزائل شہر اربیل میں گرے ہیں۔‘

گورنر کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں کا نشانہ امریکی قونصل خانہ تھا یا ہوائی اڈہ جہاں امریکی اتحادی افواج داعش کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

مقامی ٹی وی چینل کردستان24، جس کا سٹوڈیو امریکی قونصل خانے کے قریب ہے، نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپنے دفتر کی تصاویر پوسٹ کی ہیں جس کی اندرونی مصنوعی چھت کو نقصان پہنچا ہے اور شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اربیل کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

ہوائی اڈے کے حلام کا کہنا ہے کہ اسے فی الحال کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے اور فلائٹس معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔

کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم اس دہشتگرد حملے کی مذمت کرتے ہیں جو اربیل کے مختلف علاقوں میں کیے گئے ہیں، ہم مقامی رہائشیوں سے کہیں کہ وہ پرسکون رہیں۔‘

واضح رہے کہ عراق میں امریکی مفادات اور اتحادی افواج کو راکٹوں اور مسلح ڈرون حملوں کے ذریعے متواتر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

مغربی حکام نے سخت گیر ایرانی فرقے پر ان حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔ جنوری کے آخر میں بھی بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چھ راکٹس فائر کیے گئے تھے۔

عراق میں رواں برس کے آغاز سے ہی اس طرز کے حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے جہاں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی لیفٹیننٹ ابو مہدی المہندس کی دوسری برسی منائی گئی تھی جو جنوری 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا