ایبٹ آباد کے آخری کوچوانوں میں سے ایک، یوسف ماما

یوسف کوچوان کے چہرے کی جھلسی ہوئی جلد اور جھریاں جہاں پُرمشقت زندگی کی گواہی دے رہی ہیں، وہیں ان کے اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری کی بھی امین ہیں۔

ایبٹ آباد کے چنار روڈ پر نحیف ہاتھوں میں گھوڑے کی باگ سنبھالے یوسف کوچوان گذشتہ 40 برسوں سے تانگہ چلا رہے ہیں۔

ان کے چہرے کی جھلسی ہوئی جلد اور جھریاں جہاں پُرمشقت زندگی کی گواہی دے رہی ہیں، وہیں ان کے اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری کی بھی امین ہیں۔

کسی زمانے میں آرام دہ اور شاہی سواری تصور کیا جانے والا یہ تانگہ اب شاذو نادر ہی ایبٹ آباد کی سڑکوں پر نظر آتا ہے کیونکہ جدت کے باعث ان کی جگہ موٹرکاروں نے لے لی ہے۔

یوسف نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت سارے تانگے والوں کو سوزوکیاں خریدتے دیکھا اور سینکڑوں تانگوں والی اس سڑک پر صرف چار تانگے ہی نشانی کے طور پر باقی رہ گئے، جو چنار چوک اور سربن چوک کے درمیان چلتے ہیں۔

ان تانگوں میں شہری صرف 20 روپے دے کر سفر کرتے ہیں۔

یوسف کوچوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایوبی دور سے تانگا چلا رہے ہیں۔ ’پہلے میرے والد تانگا چلايا کرتے تھے، اُن کے ساتھ میں نے بھی گھوڑے کی لگام سنبھالی تھی جو آج تک تھام رکھی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول یوسف: ’وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر میں تانگہ سواری کا رجحان ختم ہو رہا ہے کیونکہ جب سے کیری ڈبہ اور سوزوکی آئے ہیں اس کے بعد لوگوں نے گھوڑے پر سواری کم کر دی ہے۔‘

تانگے پر سوار ایک تاریخ کے ایک طالب علم عاقل حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یوسف پورا دن تانگہ چلا کر 800 سے 1000 روپے کما لیتے ہیں مگر وہ اور ان جیسے کوچوان کوئی دوسرا کام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ تانگہ سواری کو اس شہر کی ثقافت کا عکاس سمجھتے ہیں۔

عاقل بتاتے ہیں کہ 68 سالہ یوسف کی زندگی کی بڑی دلچسپ داستان ہے۔ ’انہوں نے اپنی ساری زندگی تانگہ چلاتے ہوئے گزار دی ہے اور شادی بھی نہیں کی۔ وہ کسی اور کے تانگے پر محنت مزدوری کرکے اپنے دن گزار رہے ہیں۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے یوسف اپنا تانگہ نہیں خرید سکے اور جو کچھ محنت سے کماتے ہیں شام کو وہ مالک کو دے دیتے ہیں۔‘

شہر کی تہذیبی ثقافت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے رضاکار سردار شاہنواز ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تانگے شہر کی ثقافت اور تاریخ کا اہم حصہ ہیں مگر جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں، اُس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ کچھ عرصے میں یہاں ایک بھی تانگا نظر نہیں آئے گا اور فکرِ معاش شاید ان دیگر تانگے والوں کو سوزوکیاں چلانے یا روزگار کے لیے دیگر کام کرنے پر مجبور کردے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا