’گھوڑا ترپ‘ جو آج بھی خوارزم شاہ کی بہادری کا گواہ ہے

یہ جلال الدین خوارزمی ہی تھے جنہوں نے اپنی معمولی قوت کے ساتھ تاتاریوں کا سالہا سال مقابلہ کیا اور انہیں حجاز مقدس کی جانب بڑھنے نہیں دیا۔ چنگیز خان نے زندگی میں ایک بار جس سپہ سالار سے شکست کھائی وہ کوئی اور نہیں جلال الدین خوارزم شاہ ہی تھے۔

جلال الدین خوارزمی تاتاریوں کے آگے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار نہ بنتے تو کوئی انسانی طاقت انہیں مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کے احترام پر مجبور نہیں کر سکتی تھی (فوٹو: وکی میڈیا کامن)

ہمارے وزیر اعظم گذ‍شتہ دنوں ازبکستان گئے تو انہوں نے وہاں اپنے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ وہ ازبکستان کی تاریخ کو ازبکستان سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ بخارا میں سلسلہ نقشبندیہ کے بانی شیخ بہاء الدین کے مزار پر گئے، سمرقند میں امیر تیمور کے مقبرے پر بھی گئے اور امام بخاری کے مزار پر بھی حاضری دی۔

شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ازبکستان کی تاریخ بس اتنی ہی ہے لیکن اگر وہ خیوا جاتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ گذشتہ مہینوں میں قلعہ نندنہ میں جس ٹورازم ٹریل کا افتتاح انہوں نے کیا تھا اور وہاں کھڑے ہوکر البیرونی کے کارنامے گنوائے تھے وہ البیرونی بھی ازبکستان کے رہنے والے تھے۔ دریائے آمو کے مغربی کنارے پر ازبکستان کا ایک شہر خیوا ہے۔ اس شہر نے دنیا کو تین عظیم ہستیاں دیں۔ ایک الخوارزمی جو الجبرا کے بانی ہیں، دوسرے البیرونی جنہوں نے زمین کا قطر ناپا اور تیسرے جلال الدین خوارزمی جو  تاتاریوں کے آگے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار نہ بنتے اور اگر تاتاری جزیرۃ العرب کا رخ کر لیتے تو کوئی انسانی طاقت انہیں مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کے احترام پر مجبور نہیں کر سکتی تھی۔

یہ جلال الدین خوارزمی ہی تھے جنہوں نے اپنی معمولی قوت کے ساتھ تاتاریوں کا سالہا سال مقابلہ کیا اور انہیں حجاز مقدس کی جانب بڑھنے نہیں دیا۔ چنگیز خان نے زندگی میں ایک بار جس سپہ سالار سے شکست کھائی وہ کوئی اور نہیں جلال الدین خوارزم شاہ ہی تھے۔

دنیا کے دو عظیم ترین جنگجو حکمرانوں چنگیز خان اور جلال الدین خوارزمی کے درمیان جو تاریخی معرکہ  لڑا گیا وہ اٹک میں نیلاب کے مقام پر لڑا گیا اور یہیں وہ تاریخی مقام گھوڑا ترپ ہے جہاں چار دن کے خونی معرکے کے بعد جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنا گھوڑا دریائے سندھ کی موجوں کے سپرد کر دیا تھا۔ اسی پر علامہ اقبال نے کہا تھا:

دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے  گھوڑے ہم  نے

وزیراعظم اگر یہ تاریخ جانتے ہوتے تو ازبکستان میں یہ واقعات بیان کرتے۔

کہتے ہیں کہ اگر تاتاریوں کا سیل بے کراں جو اپنی طغیانی کے پہلے ہی سال میں چین سے لے کر بحیرہ خزر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اگر جلال الدین خوارزم شاہ کی صورت میں ظاہر ہونے والی آہنی دیوار سے ٹکرا کر تھم نہ جاتا تو اگلے دو چار برسوں میں نہ صرف افریقہ بلکہ یورپ اپنی آخری حدود تک اس طوفان کی زد میں آ کر تہہ و بالا ہو جاتا۔

جلال الدین خوارزم شاہ جیسےعظیم سپہ سالار اگر 32 سال کی عمر میں لٹیروں کے ہاتھوں مارے نہ جاتے تو شاید ان کی فتوحات کا جغرافیہ مختلف ہوتا۔ جلال الدین خوارزم کی مسلسل فتوحات نے چنگیز خان کا سارا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا۔ کئی نامور تاتاری سردار مارے جا چکے تھے اور قریب تھا کہ چنگیز خان کا قصہ بھی تمام ہو جائے مگر ہوا یوں کہ جلال الدین خوارزم شاہ کے اپنے لشکر میں پھوٹ پڑ گئی۔

’پران‘ کے معرکے میں سلطان کے سپاہیوں کو بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا تھا ان میں ایک خوبصورت اور بیش قیمت گھوڑا بھی شامل تھا۔ اس گھوڑے کے استحقاق پر سلطان کے دو سرداروں امین الملک اور سیف الدین اغراق میں بحث شروع ہو گئی۔ دونوں سرداروں کے حامیوں کے درمیان تلواریں نکل آئیں۔ امین الملک کا بھائی مارا گیا۔ سلطان کے لیے صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ امین الملک، جلال الدین کا سسر بھی تھے جس کی وجہ سے سیف الدین کو سلطان کی نیت پر شک ہوا۔ اس نے سلطانی لشکر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور رات کی تاریکی میں ننگر ہار کی طرف روانہ ہو گیا، اس کے ہمراہ  اس کا لشکر اور کئی امرا بھی تھے۔

سلطان جب صبح اٹھے تو لشکر گاہ ویران پڑی تھی۔ جب چنگیز خان کو سلطانی لشکر میں پھوٹ پڑنے کا علم ہوا تو اس نے اپنا لشکر جمع کر کے خوارزم شاہ کا آندھی کی طرح تعاقب کیا کیونکہ وہ ہر صورت اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

سلطان نے بھی اپنے حامیوں کی طرف سفیر بھیجے کہ وہ تاتاری لشکر کے خلاف مدد کریں لیکن جب کوئی نہیں آیا تو سلطان نے غزنی سے ہندوستان کی طرف کوچ کیا۔

سلطان نے پشاور سے ہٹ کر دریائے سندھ کا رخ کیا تاکہ دریا پار کر کے مسلمان بادشاہ شمس الدین التمش کا تعاون حاصل کر سکیں۔ چنگیز خان کو سلطان کےارادوں کا پتہ تھا اس لیے وہ ہر قیمت پر سلطان کا راستہ دریائے سندھ سے پہلے روکنا چاہتا تھا۔ چنگیز خان نے جو ہراول دستہ جلال الدین کے تعاقب میں روانہ کیا تھا سلطان کے فوجیوں نے گھات لگا کر ان میں سے بیشتر کو مارا ڈالا۔

اس خبر سے چنگیز خان تلملا اٹھا اور برق رفتاری سے تعاقب کرنے لگا۔ سلطان کے ہمراہ تیس ہزار کا لشکر تھا جبکہ ان کے تعاقب میں چنگیز خان دو لاکھ کا لشکر لے کر آ رہا تھا۔ دریائے سندھ پورے جوبن پر بہہ رہا تھا اور تیس ہزار کے لشکر کا کم وقت میں دریا پار کرنا ممکن نہیں تھا۔ ادھر تاتاری لشکر سر پر چڑھ آیا تھا۔ جس کی وجہ سے کالا چٹا پہاڑ میں باغ نیلاب کے اس پار سلطان نے اپنا لشکر مجتمع کر کے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیلاب کے کنارے پر تقریباً پانچ میل چوڑا  اور بارہ میل لمبا ایک سرسبز میدان ہے۔

سلطان جب اس مقام پر پہنچے تو انہوں نے محسوس کیا کہ تاتاریوں کے سیلاب کا سامنا کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی میدان نہیں۔ یہاں سنگنی ندی دریائے سندھ میں ملتی ہے۔ تاتاری فوجیں بھی صف آرا ہو گئیں۔ سلطان جانتے تھے کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں، پیچھے دریا ہے اور سامنے تاتاری لشکر جو تعداد میں کہیں زیادہ ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی طبل جنگ بج اٹھا، دو دن گھمسان کی جنگ ہوتی رہی اور خوارزم شاہ کے سپاہی  کم تعداد میں ہونے کے باوجود داد شجاعت دیتے رہے۔ تیسرے دن سلطان جلال الادین نے چنگیز خان کو قتل کرنے کی حکمت عملی بنائی کیونکہ یہی ایک صورت تھی جس سے مخالف لشکر کے پاؤں اکھڑ سکتے تھے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ چنگیز خان کے ارد گرد دس ہزار کا زرہ پوش لشکر معمور تھا۔ مگر سلطان کی شمشیر مخالف صفوں کو چیرتی ہوئی چنگیز خان تک پہنچ گئی۔

سلطان کا خیال تھا کہ چنگیز خان انہیں دیکھتے ہوئے مقابلہ کرے گا مگر جب چنگیز خان کا گھوڑا سلطان کے لشکریوں نے مار ڈالا توچنگیز خان گھوڑا تبدیل کرتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ اسے معلوم تھاکہ جلال الدین خوارزم کی تلوار کے آگے وہ ٹھہر نہیں سکے گا۔

چنگیز خان کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کا لشکر بھی لرز گیا۔ اس سے پہلے کہ جلال الدین خوارزم نئی حکمت عملی ترتیب دیتے چنگیز خان کی فوج نے پہاڑ کی دوسری جانب سے حملہ کر دیا۔ چونکہ خوارزم شاہ کی فوج کا بڑا حصہ چنگیز کو ہلاک کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا اس لیے پیچھے کی جانب فوج قلیل تعداد میں تھی۔ اس اچانک حملے پر خوارزم شاہ کی فوج پسپا ہونا شروع ہو گئی اور جلال الدین کے کمانڈر امین الملک مارے گئے۔

اب چنگیز خان کے فوجیوں کا ہدف جلال الدین خوارزم شاہ تھے جن کا جانثار دستہ ایک ایک کر کے کٹتا گیا۔ جلال الدین خوارزم شاہ  تقریباً پانچ میل پسپائی کے بعد جب اپنے خیمے کے پاس پہنچے تو ان کے ارد  گرد صرف سات سو جانثار باقی رہ گئے تھے۔ تاہم وہ مقابلہ جاری رکھے ہوئے تھے وہ زخمی شیر کی طرح ابھی بھی دشمن کی صفیں الٹ پلٹ کر رہے تھے۔

انہیں خبر ملی کہ ان کے سات سالہ بیٹے کو جب چنگیز خان کے سامنے پیش کیا گیا تو ظالم نے اس معصوم کے تلوار سے دو ٹکڑے کر دیے۔ ادھر جلال الدین کو اپنی ماں اور بیوی بچوں کی فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے انہیں دریا کے سپرد کر دیا اور یوں پورا خاندان دریا نے اپنی آغوش میں لے لیا مگر سلطان کے پاس آنسو بہانے کی بھی  فرصت نہیں تھی۔ سلطان غضب ناکی سے لڑ رہے تھے اور چنگیز خان یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تھوڑی دیر میں یہ کھیل ختم ہو جائے گا اور سلطان گرفتار ہو کر میرے سامنے ہوں گے۔

اسی دوران سلطان کے ماموں زاد بھائی ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر پوری قوت سے انہیں دشمن کے نرغے سے باہر لے آئے۔ سلطان نے دریا کے کنارے چٹانوں پر چڑھ کر پیچھے نگاہ ڈالی تو دشمن کا ریلا سیلاب کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا۔ دوسری طرف دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ موجیں اتنی منہ زور تھیں کہ لمحوں میں کسی کو بھی تتر بتر کر دیں۔ سلطان نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تاریخ خوارزم شاہی کے مؤلف کے بقول اس مقام پر دریا کی گہرائی 180 فٹ تھی جس میں جا بجا خوفناک چٹانیں سر اٹھائے کھڑی تھیں۔

جیسے ہی سلطان کا گھوڑا دریا میں گرا ایک گرجدار آواز پیدا ہوئی۔ دریا کا پانی کئی گز اوپر اچھلا۔ لمحہ بھر کے لیے سلطان جلال الدین خوارزم لہروں میں گم ہو گئے تاہم وہ کئی بار ابھرے اور ڈوبے۔ دریا کی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے  کنارے کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔

نومبر کا یخ بستہ پانی اور چار دن کی لڑائی کی تھکان اپنی جگہ اور جلال الدین کا آہنی حوصلہ اپنی جگہ، دریا کی موجوں نے سلطان کوراستہ دے دیا اور سلطان دریا کے پار اتر گئے۔ چنگیز خان یہ منظر بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ سلطان نے کنارے پر پہنچتے ہی ایک زور دار قہقہ لگایا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ چنگیز خان دریائے آمو سے اپنے جس دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آیا تھا اب اس کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا تھا۔

دریائے سندھ نے موت کے آگے جو سرحد کھینچ دی تھی اسے عبور کرنا اب  چنگیز کے بس میں نہیں تھا۔ چنگیز نے اپنے بیٹوں اوکتائی اور چغتائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’بیٹا ہو تو ایسا، وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے جس کا بیٹا اتنا بہادر ہو، اس جیسا جواں مرد دنیا میں نہ پیدا ہوا نہ پیدا ہو گا۔‘

جلال الدین خوارزم نے جس گھوڑے پر دریا عبور کیا وہ انہیں بہت محبوب ہو گیا تھا اور یہ معرکہ سندھ کے پانچ سال بعد تفلیس کی فتح تک سلطان کے پاس رہا۔ اس اعزاز کی وجہ سے اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین کی فوج میں خوارزمی سپاہی نہ ہوتے تو نہ یوروشلم فتح ہوتا نہ بیت المقدس مسلمانوں کے پاس آتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹک بسال روڈ پر تاریخی قصبہ باغ نیلاب آج بھی خوارزم شاہ کی بہادری کا گواہ بن کر کھڑا ہے اور وہ مقام جہاں سے سلطان نے چھلانگ لگائی تھی گھوڑا ترپ کے نام سے آج بھی معروف ہے۔

خوارزم شاہ یہاں سے نکلے تو قلعہ نندنہ میں کھوکھر سردار رائے رسل کے ہاں تین سال پناہ گزین رہے۔ رائے رسل نے اپنی بیٹی کا رشتہ سلطان سے کر دیا۔

عمران خان یہ تاریخ جانتے ہوتے تو ازبکستان اور پاکستان کے ثقافتی و تہذیبی روابط پر بات کرتے لیکن ہمارے وزیراعظم سب کچھ  جانتے  ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ