عمران خان مطمئن، مسلم لیگ ن کا مارچ دو دن کے لیے موخر

مسلم لیگ ن کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ لانگ مارچ 24 کی بجائے 26 مارچ کو لاہور سے روانہ ہوگا۔ دوسری جانب وزیر اعظم خان کا کہنا ہے لڑائی ہونے تو دیں، پھر دیکھتے ہیں کون استعفیٰ دے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’70 فیصد عوامی رائے اپوزیشن کے خلاف ہوچکی، 27 مارچ کے بعد یہ عوامی رائے 90 فیصد ہوجائے گی۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں آج سیاسی صورت حال ان کے قابو میں ہونے کا تاثر دیا ہے تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ کے آغاز کی تاریخ دو دن آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کے مطابق لانگ مارچ کے شیڈول میں معمولی ردوبدل کے بعد انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کا لانگ مارچ 24 کی بجائے 26 مارچ کو لاہور سے روانہ ہوگا۔

مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی زیرصدارت لانگ مارچ مینیجمنٹ کمیٹی کا اہم اجلاس آج لاہور میں منعقد ہوا، جس میں لانگ مارچ کی تیاریوں پر غور کیا۔ مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا کہ 26 مارچ کو لانگ مارچ کے آغاز کا فیصلہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے پر کیا گیا ہے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف لانگ مارچ کی قیادت کریں گے اور لانگ مارچ 27 مارچ کی بجائے 28 مارچ کو راولپنڈی پہنچے گا۔

ترجمان مسلم لیگ ن کے مطابق شہبازشریف کی زیرصدارت لانگ مارچ مینجمنٹ کمیٹی کو عہدیداروں کی تیاریوں اور انتظامات سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔

شہبازشریف نےتمام تنظیموں کو بہترین اشتراک عمل یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ مہنگائی مکاؤ مارچ عوام کی خواہشات کی تکمیل کا باعث بنے گا، معاشی تباہی، بدترین مہنگائی، بے روزگاری عوام کے گھر اور کاروبار اجاڑ چکے ہیں، لانگ مارچ مہنگائی، نالائقی اور کرپشن کے ستائے عوام کے حکومت پر عدم اعتماد کا فیصلہ کن اقدام ہے۔

اجلاس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سیکرٹری جنرل احسن اقبال، پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر اپوزیشن جماعتوں نے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کی تاریخ 24 مارچ رکھی تھی اس سلسلہ میں تیاری بھی بھر پور کی جارہی تھی لیکن بدلتی ملکی سیاسی صورت حال کے پیش نظر لانگ مارچ کی تاریخوں میں بھی ردوبدل کردیا گیا ہے۔

مالاکنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا: ’ہم ایمپائر کی انگلی کا علاج انگوٹھے سے کریں گے، ہم ووٹ جمہوریت سے حاصل کریں گے، میں گیٹ نمبر چار نہیں کھٹکھٹاؤں گا۔ اگر ہمیں وزیراعظم کو ایسے نکالنا ہی ہے تو میں جمہوری طریقہ اپناؤں گا، میں احتجاج کروں گا اور عوام کی طاقت سے ہم اس کٹھ پتلی کو بھگائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ تین نسلوں سے یہاں کے عوام کی خدمت کررہے ہیں، اگر درگئی میں گھی مل اور بتاخیل میں وول سپننگ مل موجود ہے تو اس کی بنیاد قائد عوام نے رکھی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ سمیت دیگر وسائل صدر آصف زرداری نے دلوائے،  18ویں ترمیم دی، آئینی حقوق بھی دیے اور یہاں کے عوام کو دہشت گردی سے آزادی دلوائی تھی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی پی پی نے نہ صرف دہشت گردوں کو شکست دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ 25 لاکھ آئی ڈی پیز کا خیال بھی رکھا، تین مہینے میں صدر زرداری نے ان آئی ڈی پیز کو واپس گھر بھیجا تھا۔

انہوں نے کہا، ’ہم اس کٹھ پتلی کا مقابلہ پہلے دن سے کررہے ہیں، یہ جیالے اس کٹھ پتلی کا مقابلہ کررہے ہیں اور پہلے دن سے میں یہی کہہ رہا ہوں کہ ہم اس غیرجمہوری شخص کا مقابلہ جمہوریت سے کریں گے۔‘

’استعفیٰ نہیں دوں گا، سرپرائز دوں گا‘

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد میں شکست کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے آج (بدھ) اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنا ہرحربہ استعمال کیا ہے ہم حزب اختلاف کو بڑی حیرانی میں مبتلا کردیں گے جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ کتنے ارکان ان کے ساتھ ہیں۔

وزیراعظم نے کسی بھی دباؤ میں آ کر استعفیٰ دینے کو مسترد کردیا انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست اپنی بدعنوانی چھپانے کے گرد گھومتی ہے۔عمران خان نے کہا کہ 27 مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں تحریک انصاف کا جلسہ تاریخی ہوگا۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مسلح افواج ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ایک مضبوط فوج ملک کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مستعفی ہونے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’استعفیٰ نہیں دوں گا بلکہ آخری بال تک لڑوں گا۔ ووٹنگ سے ایک روز پہلے یا ووٹنگ والے دن صبح اپنے کارڈ دکھاؤں گا جو بڑا سرپرائز ہوگا۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’70 فیصد عوامی رائے اپوزیشن کے خلاف ہوچکی، 27 مارچ کے بعد یہ عوامی رائے 90 فیصد ہوجائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چوہدری نثار سے ملاقات ہوئی ہے۔ ان سے برسوں پرانا تعلق ہے۔ ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’حکومت چھوڑنے کے لیے  تیار ہوں لیکن استعفیٰ نہیں دوں گا۔ لڑائی ہونے تو دیں، پھر دیکھتے ہیں کون استعفیٰ دے گا۔ کیا میں لڑائی سے پہلے ہاتھ کھڑے کردوں؟ ابھی تو لڑائی شروع ہوئی ہے۔ جب تک زندہ ہوں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ شہبازشریف مجرم ہے۔ مقصود چپڑاسی والے شہبازشریف کے ساتھ بیٹھنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں ریفرنس اس لیے بھیجا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکا جا سکے۔ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو سامنے آئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب سپریم کورٹ کے سامنے سوال قانون سے آگے نکل چکا ہے۔عدالت جائزہ لے کیا پیسہ خرچ کر کے حکومت گرانا جمہوریت ہے؟‘

وزیر اعظم نے کہا کہ ’نیوٹرل والی بات کا غلط مطلب لیا گیا۔ نیوٹرل والی بات اچھائی پھیلانے اور برائی روکنے کے تناظر میں کی تھی۔ کسی سے دوریاں نہیں۔ جنرل باجوہ سے دوریوں کی بات بھی غلط ہے۔ فوج سے آج بھی تعلقات اچھے ہیں۔ آج فوج کی وجہ سے پاکستان بچا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان نے کہا کہ ’سیاست کے لیے فوج کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کی فوج پر مسلسل حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی ڈان لیکس تو کبھی میموگیٹ ہوا۔ پاکستان کو فوج کی بہت ضرورت ہے۔  اگر فوج نہ ہوتی تو ملک کے خدانخواستہ تین ٹکڑے ہو چکے ہوتے۔ جن مسلم ممالک کی فوج مضبوط نہیں ان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان دنوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے والی ہے۔ این آر او نہیں دوں گا۔ نہ صرف میرے ناراض کارکن واپس آچکے بلکہ نئے لوگ پارٹی جوائن کررہے ہیں۔ عوام بھی میرے ساتھ ہیں۔ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ سب ڈاکو میرے خلاف اکٹھے ہوچکے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں آرام سے گھر بیٹھ جاؤں گا تو اس کی غلط فہمی ہے۔ عوام تیار بیٹھے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے حکومت کے جانے یا نہ جانے کا اس لیے خوف نہیں کہ میں نے چوری کرکے جائیدادیں نہیں بنائیں، اپنے گھر میں رہتا ہوں، گھر کا خرچہ خود اٹھاتا ہوں، میرا کوئی رشتہ دار حکومتی عہدے پر نہیں۔‘

عمران خان نے ایک بار پھر دہرایا کہ ’بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں کہ کٹھ پتلیوں کو اوپر لائیں کیونکہ چور سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا۔ جن کا پیسہ باہر پڑا ہو، اس کو مینیج کرنا آسان ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان