’سورج سے لاکھوں گنا روشن‘ ستارہ دریافت

سائنس دانوں کے مطابق ایرینڈل یعنی’سحر کا ستارہ‘ زمین سے دور ترین انفرادی ستارہ ہے جس سے روشنی کو زمین تک پہنچنے میں12.9 ارب سال لگے۔

یورپین سپیس ایجنسی سے حاصل کردہ تصویر جس میں ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے دیکھے گئے اربوں نوری سال دور ستارے ایرنڈیل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ (اے ایف پی، ناسا، ای ایس اے، بی ویلچ، ڈی کوئی، اے پیگن)

امریکی خلائی ادارے ناسا کی خلائی دور بین ہبل کا استعمال کرتے ہوئے سائنسدانوں نے اب تک کا سب سے دور افتادہ انفرادی ستارہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سائندانوں نے اس نئے روشن ستارے کو ایرینڈل (Earendel) کا نام دیا ہے، پرانی انگریزی کا لفظ جس کا مطلب ’سحر کا ستارہ‘ ہے، کیونکہ یہ کائنات کے کے آغاز میں موجود تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ زمین سے 28 ارب نوری سال دور یہ ستارہ نیلے رنگ کا ہے اور انتہائی گرم ہے۔ اندازہ ہے کہ اس ستارے کا حجم ہمارے سورج سے 50 سے 100 گنا زیادہ ہے جبکہ  یہ ہمارے سورج سے لاکھوں گنا زیادہ روشن ہے۔ 

اس ستارے کی روشنی نے زمین تک پہنچنے سے پہلے 12.9 ارب سال کا سفر کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ستارہ اس وقت بھی موجود تھا جب کائنات اپنی موجودہ عمر کے محض سات فیصد تھی۔

ایرینڈل کائنات کے آغاز میں بگ بینگ کے واقعے کے تقریباً 90 کروڑ سال بعد پیدا ہوا تھا۔ اس کا تعلق اس وقت کے ستاروں کی ابتدائی نسلوں میں سے ہے جب کائنات آج کے مقابلے میں کافی مختلف تھی۔

بالٹی مور میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہر فلکیات برائن ویلچ نے کہا: ’یہ ستارہ کائنات کے ابتدائی دنوں کے حوالے سے ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے۔‘

اس ہفتے سائنسی جریدے ’ نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے سرکردہ مصنف ویلچ نے مزید کہا: ’ہم اس ستارے کو اس وقت کی مدت میں دیکھ رہے ہیں جسے کاسمک ڈان یا کائنات کا طلوع کہا جاتا ہے، یہ وہ وقت تھا جب کائنات میں ستاروں سے پہلی روشنی پھیلنا شروع ہو رہی تھی اور جب پہلی کہکشائیں بننا شروع ہو رہی تھیں۔‘

اس ستارے کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے ویلچ نے کہا کہ محققین نے سوچا کہ کاسمک ڈان کے دور کے اس ستارے کو ’سحر کا ستارہ‘ پکارنا اچھا رہے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرح سے ہبل کو ٹائم مشین کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سائنس دان ایرینڈل کی طرح دور دراز کے اجسام فلکی کا مشاہدہ کرنے کے لیے گہرے ماضی میں جھانک رہے ہیں کیونکہ اس ستارے سے روشنی نے زمین تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ فاصلہ طے کیا تھا۔

ویلچ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’لہذا عام طور پر جب ہم بہت دور کی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ایک پوری کہکشاں کی روشنی ہے۔ اس طرح لاکھوں ستارے ایک ساتھ مل گئے ہیں اور ہم ان کو دور سے دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ لیکن پس منظر میں کہکشاؤں کے ایک بہت بڑے جھرمٹ کی بدولت اس ایک ستارے کی روشنی اب بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اس لیے ہم اس واحد ستارے کو اتنے طویل فاصلے سے دیکھ سکتے ہیں۔‘

ہبل کے ذریعے ایرینڈل کی پہلی تصاویر 2016 میں حاصل کی گئی تھیں اور 2019 کے مشاہدات کے ساتھ محققین امید کر رہے ہیں کہ نیکسٹ جنریشن کی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے اس کا مزید گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکے گا۔ یہ جدید ترین دوربین دسمبر میں لانچ ہونے کے بعد چند ماہ میں آپریشنل ہو جائے گی۔

اس سے قبل اب تک سب سے زیادہ دور ریکارڈ کیا گیا ستارہ اکارس (Icarus) تھا جو ایرینڈل کے چار ارب سال بعد وجود میں آیا تھا۔

ایرینڈل شاید آج کائنات کو آباد کرنے والے ستاروں سے بہت مختلف تھا جیسا کہ ویلچ نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے جس میں کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن سمیت بھاری عناصر کی مقدار کا سراغ لگایا گیا ہے۔

ویلچ نے کہا کہ پہلے ستارے بگ بینگ کے دھماکے کے تقریباً 10 کروڑ سال بعد وجود میں آئے تھے اور یہ کہ شاید ستاروں کی ایک یا دو نسلیں ایرینڈل کی تشکیل سے پہلے سے موجود تھیں۔

ویلچ نے کہا کہ اگرچہ زمین پر سائنسدان اب اس ستارے کی روشنی کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ایرینڈیل خود یقینی طور پر شاید اب موجود نہ ہو کیوںکہ اتنے بڑے ستاروں کی عمر نسبتاً کم ہوتی ہے۔ یہ ایک سپرنووا دھماکے کے بعد فنا ہونے سے پہلے شاید چند سو کروڑ سال تک موجود تھا۔

ویلچ نے کہا:  ’بڑے ستارے تیزی سے زندہ رہتے ہیں اور جوانی میں فنا ہو جاتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس