انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کی بھارت پر سرزنش

نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن مودی دور حکومت میں پولیس اور جیل حکام کی جانب سے بھارت میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ میں اضافے کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

بلنکن نے واشنگٹن میں ٹو پلس ٹو اجلاس کے بعد ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں نئی دہلی کی جانب اپنی توپوں کا رخ کیا۔

بلنکن نے کہا: ’ہم اپنے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ ان مشترکہ اقدار (انسانی حقوق) پر باقاعدگی سے رابطے میں رہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہم بھارت میں کچھ حالیہ اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں جن میں کچھ (ریاستی) حکومتوں، پولیس اور جیل کے اہلکاروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔‘

امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد بھارتی وزرا نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

واشنگٹن کی نئی دہلی کے خلاف یہ سرزنش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر نے بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف تنقید کرنے میں بائیڈن انتظامیہ کی ہچکچاہٹ پر کھل کر تنقید کی تھی۔

الہان عمر نے کہا تھا: ’مودی کی جانب سے بھارت کی مسلم آبادی کے ساتھ سلوک پر ہمیں انہیں امن میں اپنا شراکت دار سمجھنا چھوڑ دینا چاہیے۔‘

وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 2014 میں بھارت میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے اسلامو فوبیا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔  

حالیہ مہینوں میں دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے مسلمانوں، ان کے معاش، خوراک، ثقافت اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انتہا پسند ہندو گروپس کے بہت سے ارکان کھلے عام اقلیتوں کے خلاف تشدد کو اکسا رہے ہیں۔

ایک ایسے ہی ہندو راہب مہنت بجرنگ مونی اُداسین نے شمالی بھارت کی ریاست اتر پردیش میں پولیس کی موجودگی میں مسلم خواتین کو ریپ کی کھلے عام دھمکیاں دیں جو کیمرے پر بھی ریکارڈ ہیں۔

اس سے قبل درجنوں معروف مسلمان خواتین کو ایک اوپن پلیٹ فارم گِٹ ہب پر ’نیلامی‘ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

اتوار کو ہندوؤں کے تہوار ’رام ناؤامی‘ کے دوران بھارت کی کم از کم پانچ ریاستوں میں بھڑکنے والے فرقہ وارانہ تشدد میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔

جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب تہوار کا جشن منانے والے جلوسوں نے مساجد اور مسلمان اکثریتی آبادی والے علاقوں کے سامنے اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے پرتشدد اور غیر انسانی شاعری پر مشتمل گانے لاؤڈ سپیکرز پر بجائے۔

اس کے علاؤہ دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے کیمپس میں ہندو تہوار کے موقع پر گوشت کھانے پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سٹوڈنٹ ونگ ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (اے بی وی پی) کے ارکان نے طلبہ پر حملہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہندو انتہا پسند آر ایس ایس بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیادی نظریاتی تنظیم ہے۔

جنوب مغربی ریاست کرناٹک میں اسی طرح کے انتہا پسند ہندو گروپس کے ارکان نے مسلم پھل فروشوں کے سٹالوں کی توڑ پھوڑ کی۔ اسی ریاست نے طالب علموں کو تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے سے روک دیا گیا جس سے وہ کلاسوں اور امتحانات میں بیٹھنے سے محروم ہو گئیں۔ اسلامی سکارف پہنے طالبات کو زعفرانی لباس پہنے مردوں کے ہجوم نے مذہبی نعرے لگا کر ہراساں کیا گیا۔

مرکزی ریاست مدھیہ پردیش میں مذہبی جلوسوں کے دوران فرقہ وارانہ تصادم کے دوران بی جے پی حکومت نے کھرگون شہر میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو منہدم کر دیا۔

وزیراعظم مودی سمیت موجودہ انتظامیہ کے اہلکار اس طرح کے حملوں کے پس منظر میں بڑی حد تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

مودی حکومت نے کئی طالب علموں، قبائلی شہریوں اور سماجی کارکنوں کو حکومت کے خلاف بولنے پر قید کر رکھا ہے۔ طلبہ کے سابق رہنما عمر خالد اور شرجیل امام فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات کو بھڑکانے کے الزام میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔

ریاست چھتیس گڑھ میں پولیس حراست میں ایک خاتون کی موت کے خلاف احتجاج کرنے پر انتہائی سخت ایکٹ (یو اے پی اے) 202 کے تحت گرفتار قبائلی حقوق اور ماحولیاتی کارکن ہڈمے مارکم اب بھی ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں۔

مرکزی حکومت نے 2019 میں شہریت کا ایک متنازع قانون منظور کیا جس میں پڑوسی ممالک سے آنے والے مسلمان تارکین وطن کو خارج کر دیا گیا جس سے حکومت مخالف احتجاج کو ہوا ملی۔ اس قانون کا مقصد بدھ، مسیحیوں، ہندوؤں، جینوں، پارسیوں اور سکھوں کو بھارتی شہریت دینا تھا جو 2015 سے پہلے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت منتقل ہوئے تھے۔

گذشتہ ایک سال سے عیسائیوں، گرجا گھروں اور مشنری سکولوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

تاہم بھارت نے شہری آزادیوں کی پامالی کے خلاف غیر ملکی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کو ہمیشہ کی طرح مسترد کر دیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان