بلوچستان: گندم کے دانے اچانک چھوٹے کیوں ہو گئے؟

مارچ میں گرمی کی شدت میں اچانک اضافے کے باعث گندم اور دوسری فصلیں وقت سے پہلے پک کر تیار ہو گئی ہیں جو بلوچستان کے زمینداروں اور زرعی ماہرین کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

محکمہ موسمیات نے اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے بتایا تھا کہ خشک موسم اور گرمی کی لہر کی وجہ سے کھڑی فصلوں، سبزیوں اور باغات کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

منجھو شوری کے زمیندار علی حسن منجھو کہتے ہیں کہ رواں سال انہیں سردی کا موسم اس طرح سے محسوس نہیں ہوا جیسا کہ اس قبل ہوا کرتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ سردی میں لحاف وغیرہ لینے پڑتے ہیں مگر  اب کی بار ایسا نہیں تھا جو ان کے لیے تھوڑا عجیب تھا۔

جنوری اور فروری کے بعد مارچ کا موسم بھی شدید گرمی کا موسم نہیں ہوتا لیکن رواں سال بلوچستان کے سندھ سے متصل گرم علاقوں نصیر آباد، جعفرآباد اور دوسرے علاقوں میں گرمی کی شدت بڑھ گئی۔

مارچ میں گرمی کی شدت میں اچانک اضافے کے باعث گندم اور دوسری فصلیں وقت سے پہلے پک کر تیار ہوگئیں۔ جو یہاں کے زمینداروں اور زرعی ماہرین کے لیے تشویش کا باعث بنی۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایگری کلچر ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ خان پور اوستہ محمد امان اللہ سالارزئی نے فصلوں پر کچھ تحقیق کی جس میں یہ چیز سامنے آئی کہ گرمی نے فصلوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

امان اللہ سالارزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اوستہ محمد میں جب مارچ کے شروع میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا جو 40 ڈگری سے بھی اوپر چلا گیا، اور اس نے وقت سے پہلے فصلوں کو تیار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ عموماً یہ فصلیں اپریل میں کٹائی کے لیے تیار ہوتی تھیں، لیکن اس بار مارچ میں ہی ان کو کاٹنا پڑا، جس کے باعث ربیع کی فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔

امان اللہ سالارزئی نے بتایا کہ مشاہدے کے دوران ’میں نے دیکھا کہ جو گندم کی فصل اس بار تیار ہوئی ہے، اس کا دانہ سائز میں چھوٹا ہے جو عموماً اس طرح کا نہیں ہوتا ہے۔‘

’گندم کے علاوہ دوسری فصلیں جن میں دالیں اور روغنی اجناس بھی شامل  ہیں متاثر ہوئی ہیں۔ گندم متاثر ہونے سے فی ایکڑ پیدوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ جیسے اگر فی ایکڑ گندم 40 من پیدا ہوتی تھی تو اس بار 25 من تک پیدا کرسکی ہے۔‘

امان اللہ کہتے ہیں کہ دس مارچ سے 25 مارچ تک گرمی کی شدید لہر نے بلوچستان اور سندھ کے زرعی شعبے کو متاثر کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر موافق موسمی حالات نے فصلوں کی قدرتی نشوونما کو روک دیا۔ اس کے ساتھ پانی کی کمی اور کھاد کی عدم فراہمی کا بھی کردار رہا ہے۔

محکمہ موسمیات نے بھی 15 مارچ کو گرمی کی شدت میں اضافے کے حوالےسے الرٹ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ہوا کے زیادہ دباؤ کے باعث ملک کے بیشتر علاقوں میں رواں ہفتے کے دوران دن کے درجہ حرات میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

الرٹ میں کہا گیا تھا کہ شمالی بلوچستان میں دن کا درجہ حرارت نو سے دس ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ جبکہ جنوبی بلوچستان میں بھی دن کا درجہ حرارت سات سے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے بتایا تھا کہ خشک موسم اور گرمی کی لہر کی وجہ سے کھڑی فصلوں، سبزیوں اور باغات کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زمیندار الرٹ سے بے خبر

ضلع نصیر آباد کے علاقے منجھو شوری کے زمیندار علی حسن بھی اس بات سے بے خبر تھے کہ مارچ کے مہینے میں کوئی غیر ممعولی گرمی ہوسکتی ہے۔

علی حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 22 سالوں سے زمینداری کے شعبے سے وابستہ ہیں، لیکن انہوں نے اس سے پہلے کبھی مارچ میں اتنی گرمی کا مشاہدہ نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال انہوں نے 270 ایکڑ پر گندم کی فصل کاشت کی جس میں اس وقت 30 سے 35 فیصد تک نقصان ہوا ہے۔ ان کے مطابق اصل صورتحال تمام فصل کی کٹائی کے بعد سامنے آئے گی۔ تاہم پیدوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

’ہم گندم کے علاوہ دھنیا اور چنا بھی کاشت کرتے ہیں۔ سرسوں کی فصل پہلے تیار ہوتی ہے۔ وہ متاثر نہیں ہوئی۔ گندم اور چنے پر اثرات پڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ زمینداروں کو باقاعدہ گرمی کی شدت میں اضافے کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔ سب کی طرح انہوں نے بھی ٹی وی پر خبر دیکھی تھی۔

’ہمارے ہاں محکمہ زراعت اس حوالے سے غیر فعال ہے۔‘

علی حسن کے بقول ’گندم کے دانوں کو دیکھا جو چھوٹے اور پچکے ہوئے ہیں۔ سائز چھوٹا ہونے کے باعث اس کے وزن میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘

 ادھار پر چلنے والی معیشت 

زمیندار علی حسن کا کہنا تھا کہ پیداوار میں کمی سے ہمیں منافع کم ملے گا۔ ’یہاں کی معیشت ادھار پر چلتی ہے، زمیندار ہندو آڑتھیوں سے بیج کھاد اور دوسری چیزیں حاصل کرتے ہیں، جو ادھار پر ملتی ہیں جس پر وہ اپنا منافع رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پیدوار میں کمی کی صورت میں زمیندار کو اپنا قرضہ اتارنے میں مشکل کا سامنا ہوگا۔ ’ہوسکتا ہے کہ اس صورتحال کے باعث بعض لوگوں کو زمینیں فروخت کرنا پڑیں۔ اس کے اثرات معاشرے پر بھی پڑیں گے۔‘

ماہرین کی رائے

زراعت کے شعبے کے ماہر اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ںظر رکھنے والے محمد شریف بزدار سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ ’اس کو ہم کہتے ہیں کہ جو بھی غیر یقینی کیفیت ہو وہ موسم کی تبدیلی ہے۔‘

 محمد شریف بزدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی دیگر چیزوں کے علاوہ فصلوں کو بھی متاثر کرتی ہے، جس کا ایک اثر ہم نے نصیر آباد میں گرمی کی شدت میں اضافے کی صورت میں دیکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ ایک سنجیدہ خطرہ ہے اور میں اسے دہشت گردی سے بھی بڑا سمجھتا ہوں۔ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے۔ شہر پھیل رہے ہیں، ہمیں خوراک کی زیادہ ضرورت پڑھ رہی ہے۔ اگر فصلیں متاثر ہوں گی تو ہماری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

 تجاویز 

محمد شریف کہتے ہیں کہ اگر گرمی کی حدت بڑھ جاتی ہے تو جو فصلیں ہیں، پودے ہیں، ان کو پانی کی  زیادہ ضرورت ہوگی۔ اگر پانی زیادہ استعمال کریں گے تو اس کی قلت بھی ہوسکتی ہے۔ 

 انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں روایتی زراعت کو ترک کرنا ہوگا۔ اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مستقبل میں ہمیں اپنے پرانے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بیجوں کی نئی قسمیں تلاش کرنا ہوں گی جو حدت اور سردی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

محمد شریف کہتے ہیں کہ اس وقت فصلوں اور پودوں کو یوریا کھاد اور ڈی اے پی دیتے ہیں۔ ’ہماری توجہ پوٹاشیم اور مائیکرنیوٹیںٹ پرکم ہے۔ مستقبل میں اس کو حصہ بنانا ہوگا۔ جتنا نائڑوجن فاسفورس دیتے ہیں، اس حساب سے پودوں کو مائیکرنیوٹینٹ بھی دینا ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہمیں بیجوں کے بونے کے وقت کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ جیسے اس وقت ہم دسمبر تک چلے جاتے ہیں۔ اس کو کچھ وقت پہلے کرنا ہوگا تاکہ فصلوں کو چھ سے سات مہینے کا وقت مل جائے۔ 

شریف بزدار کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنا ہوگا کہ ہر بار ایک جیسا نہیں ہوگا جیسےاگر اس بار نصیر آباد میں گرمی زیادہ ہوئی ہو سکتا ہے اگلے سال نہ ہو۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ فصل تیار ہو اور ژالہ باری اور بارش اسے تباہ کر دے۔

ادھر زراعت کے شعبے کے ماہر اور پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ بھی فصلوں کے وقت سے پہلے پکنے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

 ڈاکٹر محمد عارف نے بتایا کہ اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف قسم کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ جن میں متعلقہ علاقوں میں نئی فصلیں اور کاشت کے طریقے متعارف کرائے جائیں۔

 نہوں نے کہا کہ ہمیں روایتی کاشت کاری سے ہٹ کر جدید اور مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق کلائمیٹ سمارٹ زراعت کو اپنانا ہوگا۔

 گو کہ زمیندار حالیہ صورتحال کو گندم کی قلت کے حوالے سے خطرہ نہیں سمجھتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح رہی تو آئندہ چند سالوں میں انہیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان