’عمران خان کو گرو ماننے والے شاہ فیصل اب مودی کے قصیدہ گو‘

شاہ فیصل جب سیاست میں آئے تو اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور اروند کیجریوال کو اپنا گرو کہا مگر آج کل مسلسل وہ مودی اور امت شاہ کے قصیدہ گو بنے ہوئے ہیں۔

شاہ فیصل 17 مارچ 2019 کو سرینگر میں جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

انتالیس سالہ شاہ فیصل جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ملک کے سب سے بڑے مسابقتی امتحان یعنی آئی اے ایس میں جموں و کشمیر کا پہلا ٹاپر ہونے کا اعزاز ہے۔

موصوف سال 2010 میں انڈین ایدمنسٹریٹو سروسز یعنی آئی اے ایس میں اول پوزیشن لے کر سرخیوں کا حصہ بنے۔ یہ نہ صرف اس امتحان میں جموں و کشمیر کے پہلے ٹاپر بلکہ پہلے بھارتی مسلم بھی ہیں جنہوں نے ملک کے بڑے امتحان میں اول پوزیشن لی۔

لگ بھگ دس سال بیورو کریسی میں گزارنے کے بعد سال 2019 میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔

بقول ان کے، سیاست میں انٹری کی وجہ جموں و کشمیر میں نوجوانوں کا قتل عام تھا جس کو روکنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

بظاہر فیصل کی سیاست میں انٹری بڑی بڑی انقلابی ٹویٹس و فیس بک پوسٹوں سے ہوئی تھی۔ جنوری 2019 میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروز سے استعفیٰ دے کر اسی سال مارچ میں جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

اس جماعت کا سیاسی نعرہ ’اب ہوا بدلے گی‘ تھا۔ جون میں جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ پارٹی کا انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد کے ساتھ پیپلز یونائیٹڈ فرنٹ نامی سیاسی اتحاد بنا۔

2019 کے ملکی پارلیمانی انتخابات میں شاہ فیصل نے یہ جواز بنا کر حصہ نہیں لیا کہ وہ فی الحال جموں و کشمیر میں پارٹی کی جڑیں مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

ان انتخابات میں شاہ فیصل نے بارہمولہ پارلیمانی حلقہ انتخاب سے پیپلز یونائیٹڈ فرنٹ کے انجینیئر رشید کو سپورٹ کیا تھا جو الیکشن نہیں جیت سکے تھے۔

اپریل میں پارٹی کی اشاعت کے لیے وہ جموں تشریف لائے جہاں میری بھی ان سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔

ویسے تو فیصل نرم مزاج اور منکسر انسان لگتے ہیں لیکن آف دی ریکارڈ جو باتیں ہوئیں ان میں ان کے عزم کافی بلند تھے۔

اس وقت وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کر بول رہے تھے۔ جموں و کشمیر کو حاصل نیم خود مختاری (جو اگست 2019 میں ختم کر دی گئی) کا تحفظ پارٹی کا اہم منشور تھا۔ اس کے علاوہ بھارت – پاکستان ڈائیلاگز، جموں و کشمیر مسئلے کا پرامن سیاسی حل اور کشمیری پنڈتوں کی خیریت اور عزت سے واپسی بھی سیاسی ایجنڈے میں شامل تھے۔

حقیقت میں یہ سب انقلابی باتیں ریت کا ڈھیڑ ثابت ہوئیں۔ وہ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ چمکتا جو نظر آئے وہ سب سونا نہیں ہوتا۔

فیصل نے جب سیاست میں قدم رکھا تو سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان جو اس وقت وزیراعظم تھے اور چیف آف عام آدمی پارٹی اور دہلی کے تیسری بار موجودہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اپنا گرو کہا تھا۔

ابھینندن والے واقعے کے بعد فیصل نے اپنے سیاسی گرو عمران خان کو نوبل پرائز کا حقدار بھی قرار دیا تھا۔ موصوف کو سیاست میں آئے ابھی سات مہیتے ہی ہوئے تھے کہ پانچ اگست 2019 والا واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ اس دن اچانک وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں آئین ہند میں جموں و کشمیر کو حاصل نیم خود مختاری کو ختم کرنے کا بل پیش کیا تھا۔

مرکزی حکومت کی طرف سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں (مین سٹریم و علیحدگی پسند) کو حراست میں لے لیا گیا۔ یہ بل کیا پیش ہونا تھا کہ شاہ فیصل نے بھی اپنے سیاسی گرو سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرح یو ٹرن لینے ہی میں عافیت جانی۔

شاہ فیصل نے جب سیاست جوائن کی تو جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کی بڑی باتیں کرتے تھے۔

سول سروسز کا امتحان ٹاپ کرنے کی وجہ سے وہ پہلے ہی نوجوانوں میں کافی مقبول تھے لیکن سیاست میں آنے پر نوجوانوں کی تعداد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور حالات سدھارنے کے لیے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے آٹھ دن بعد یعنی 14 اگست کو شاہ فیصل بھی پی اے ایس لگا کر حراست میں لے لیے گئے۔

حراست سے ایک روز پہلے موصوف نے بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں دہلی سے ایک جوشیلا انٹرویو دیا جس میں کہا کہ یہ ’جو جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یہ جمہوریت کا قتل ہے اور ہماری نسل کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی یہ تیسری نسل ہے جس کے ساتھ لگاتار دھوکہ کیا گیا ہے۔

انٹرویو کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا اور ایم ایل اے ہوسٹل سرینگر منتقل کیا گیا۔ مذکورہ انٹرویو کو سننے کے بعد بھی نوجوانوں کو لگا کہ فیصل احسن اور جمہوری انداز میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی سیاسی جنگ لڑیں گے۔

نوجوان سمجھ رہے تھے کہ یہ سیاسی جد و جہد آئین ہند کے خلاف بھی نہیں، بالکل آئینی جدوجہد ہے اور شاہ فیصل اس کو اچھے سے لیڈ کر سکتے ہیں۔

حیران کن طور پر اگست 2020 میں خبر آتی ہے کہ شاہ صاحب سیاست سے ہی دستبردار ہو گئے ہیں اور اب وہ ایک سال چند ماہ قبل بنائی گئی پارٹی کے سربراہ بھی نہیں رہے۔ اس خبر نے ریاست کے نوجوانوں کو سخت مایوس کیا۔

فیصل بابو کا سیاست سے علیحدگی کیا کرنا تھا کہ ان کے بیانات اور لہجے میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ اپنے سیاسی گرو عمران خان کی طرح ماضی میں دیے گئے بیانات سے یو ٹرن لینے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

2018 اور 2019 کے شاہ فیصل کے مودی و بھارتیہ جنتا پارٹی مخالف کیے گئے ٹویٹس آہستہ آہستہ سب ڈیلیٹ ہونے لگے۔ فروری 2021 میں بی بی سی ہارڈ ٹاک کو دیے گئے انٹرویو کو غلطی قرار دیا۔

2020  میں فیصل نے کرونا کو لے کر مودی سرکار کی جم کر تعریف کی۔ اس کے علاوہ مرکزی سرکار کی پالیسیوں کو بھی سراہا۔ آج کل مسلسل وہ مودی اور امت شاہ کے قصیدہ گو بنے ہوئے ہیں۔ اب وہ دوبارہ سول سروسز جوائن کرنے جا رہے ہیں کیونکہ صدر نے ان کا استعفیٰ ابھی تک قبول نہیں کیا۔

جموں و کشمیر پر انٹرنیٹ پابندی لگا کر اور پورے علاقے کو اوپن جیل بنا کر آرٹیکل 370 ہٹانے کے خلاف جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک بیوروکریٹ کیناتھ گوپی ناتھن نے سول سروسز سے احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا۔

اس وقت وہ سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ڈٹ کر مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

شاہ فیصل اور گوپی نتھن میں فرق یہ ہے کہ فیصل آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت کے سامنے احتجاج کے بجائے سر نگوں ہو گئے جبکہ گوپی نتھن نے جابرانہ طریقے سے 370 ہٹانے پر احتجاجاً استعفیٰ دیا اور جموں و کشمیر پر انٹرنیٹ اور دیگر بندشوں کو لے کر حکومت پر کھل کر تنقید کی۔

شاہ فیصل کا سول سروسز سے استعفیٰ اپنے ذاتی مفاد کے لیے تھا جب مفاد ڈوبتا دکھائی دیا تو دوبارہ سروس میں جانے کا فیصلہ کیا۔

دوسری طرف گوپی نتھن نے حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے عام عوام کی آواز کے لیے استعفیٰ دیا اور اب دوبارہ سروس جوائن کرنے کے بجائے عوام میں رہ کر ان کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ