سینیٹ قائمہ کمیٹی میں توہین مذہب کے قانون پر بحث

کمیٹی چئیرمین سینیٹر ولید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کمیٹی میں اراکین کی متفقہ رائے یہی تھی کہ اس قسم کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں اور اس حوالے سے قانونی عمل کو منصفانہ بنایا جائے۔

کمیٹی اجلاس کے دوران لی گئی تصویر (انڈپینڈنٹ اردو)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق  میں آج مسجد نبوی کے واقعے اور اس کے بعد  درج مقدمات پر بات چیت کی گئی۔

کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر ولید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کمیٹی میں اراکین کی متفقہ رائے یہی تھی کہ اس قسم کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں اور اس حوالے سے قانونی عمل کو منصفانہ بنایا جائے تاکہ توہین مذہب قانون کے تحت کوئی سیاسی یا ذاتی انتقام کا نشانہ نہ بنے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی کمیٹی میں یہ معاملہ زیر التوا ہے، آئندہ ہفتے مزید تفصیلات آنے کے بعد کمیٹی سفارشات دے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں یہ تشویش ہے کہ مذہب سے متعلق جرائم کی جو دفعات ہیں ان میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔

پیر کے روز پارلیمنٹ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کے زیر صدارت ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ، سینیٹر طاہر بزنجو ، سینیٹر سیمی جمالی، سینیٹر کامران مائیکل شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب سلطان احمد ، آر پی او اور سی پی او فیصل آباد بھی کمیٹی کی معاونت کے لیے شریک ہوئے۔ کمیٹی میں وزارت انسانی حقوق، داخلہ، آئی جی جی پنجاب، سی پی او فیصل آباد سے مسجد نبوی میں پاکستانی سرکاری وفد پر نعرے بازی کے بعد درج ایف آئی آرز پر بریفنگ لی گئی۔

وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے کہا کہ مذہبی معاملات پر ایف آئی آر درج ہوئیں، اس معاملے پر پولیس اہلکاروں کی رائے لے لی جائے تو بہتر ہے۔ کتنے پرچے درج ہوئے اور کس کس کو گرفتار کیا، اداروں سے پوچھا جائے۔

اجلاس میں سیکرٹری انسانی حقوق نے بریفنگ دیتے ہوئے بتاتا کہ پولیس کے معاملات کو وزارت داخلہ دیکھتی ہے۔ انسانی حقوق کی وزارت شکایات کو دیکھتی ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے۔ اگر کوئی کیس سعودی عرب میں ہوا وہاں اس پر کیسے مقدمات بنے، اور کیا دفعات لگیں، یہ دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سعودی عرب میں مقدمات کی نوعیت مختلف ہے تو یہاں ایف آئی آر میں کیوں ایسا مواد ڈالا گیا اسے دیکھنا ہو گا۔

کمیٹی میں وزارت داخلہ کی جانب سے سینئیر جوائنٹ سیکرٹری ندیم بھٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی آر میں پوائنٹ نمبر چار میں سعودی عرب میں جو ہوا اس میں دفتر خارجہ کو بھی شامل کیا جائے۔ دفتر خارجہ سے پوچھا جائے کہ سعودی عرب میں ان کیسز میں کیا پیش رفت ہوئی۔ وزارت داخلہ اس وقت معلومات اکھٹی کر رہی ہے کہ کتنی ایف آئی آر ہوئی ہیں۔

ڈی آئی جی سلطان احمد چوہدری نے کمیٹی کو توہین مذہب بارے درج مقدمات کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جذبات بہت اہم ہیں ان کا خیال کرنا چاہیے۔ دو ایف آئی آر پنجاب میں ہوئیں ایک اٹک اور فیصل آباد میں ہوئی۔ پہلی فیصل آباد جبکہ اٹک میں دو دن بعد ہوئی اور کئی درخواستیں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب معاملے پر درخواستوں کی انکوائری کی گئی ہے۔’کُل دو ایف آئی آر ہیں۔‘

سعودی عرب میں جو ہوا اس پر پاکستان میں مقدمہ ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کوئی شہری بیرون ملک کوئی جرم کرے تو تعزیرات پاکستان کے تحت یہ قابل دست اندازی جرم ہے۔ اس لیے سعودی عرب میں ہونے والے واقعے پر پاکستان میں بھی کیس چل سکتا ہے۔

سینیٹر طاہر بزنجو نے سوال کیا کہ ایف آئی آر کرانے والے کون ہیں تو سی پی او فیصل آباد نے جواب دیا کہ مدینہ ٹاؤن میں جو مقدمہ درج ہوا اس شخص کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، مذہبی بیک گراؤنڈ بھی لگتا ہے جس نے ایف آئی آر کروائی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی صرف ایف آئی آر کی گئی ہے مزید مقدمے پر پیش رفت نہیں ہوئی۔

جب کہ ڈی آئی جی سلطان احمد نے بتایا کہ اٹک کے کیس پر گرفتاری ہوئی ہے۔ ائیر پورٹ سے اٹک معاملے پر گرفتاری کی گئی تھی۔

چئیرمین کمیٹی ولید اقبال نے کہا کہ عمران خان نے بھی واضح کیا کہ معاملے کو کمیٹی میں دیکھیں اس سے ہماری اپنی زندگی خطرات میں آسکتی ہے۔ شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے نام خط میں لکھا ہے کہ اس قانون سے زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے بھی آپ نے دیکھنا ہے۔

ریاض پیرزادہ وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ اس معاملے کو ہائی لائٹ نہ کیا جائے سلمان تاثیر کا بھی حساسیت کی وجہ سے قتل ہو گیا تھا۔ ہمارے جو حالات ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے عقلمندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایسے سٹیک ہولڈرز بھی ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ میں ان مقدمات سے میں خود بری طرح متاثرہ ہوں گاؤں میں شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے۔

ایچ آر سی پی سی کی سینئر حکام نسرین مظہر نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال کو بھی گولی ماری گئی، تحریک لبیک پر بھی مقدمات درج کیے گئے، جنید جمشید کو بھی نشانہ بنایا گیا، یہ بہت خطرناک بات ہے۔ کتنے لوگ اب بھی توہین رسالت الزام پر جیل میں ہیں اور جو وکیل دفاع کرتے ہیں انہیں بھی مار دیا گیا۔ اس لیے یہ قانون بہت خطرناک ہے۔ سیاست میں مذہب کو ہر حکومت نے وقتی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حبیب اورکزئی نے کہا کہ پاکستان میں سب زیادہ ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ کو قتل کیا جاتا ہے۔ حساس معاملے پر رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا واقعہ سعودیہ میں ہوا اور مقدمات پاکستان میں درج ہو گئے جب کہ ہمارے پاس ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک تھانے کی حدود میں واقعہ ہو تو دوسرے تھانے میں مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ اس قانون کو ختم کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ردعمل کے چیلنجز کوئی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔

سینیٹر کامران مائیکل نے کہا کہ ہجوم کو کنٹرول کرنا پولیس کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔ پولیس اگر کسی کو توہین رسالت کیس میں ہجوم سے بچاتی ہے تو ہجوم تھانے پر حملہ کر دیتا ہے۔ پولیس پر بھی حملہ ہوتا ہے۔ انہوں نے رمشا مسیح کیس کا بھی حوالہ دیا۔ مقدمہ درج کر کے نشانہ بنا لیا جاتا ہے لیکن گواہ اور شہادتیں ہی نہیں ملتیں۔ اس لیے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر کام کیا جائے۔ تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ 295c کے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی زائرین کے ایک گروپ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وفد کی سعودی عرب کے تین روزہ دورے کے سلسلے کے دوران مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ میں بدتمیزی کی اور ان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ وزیراعظم اپنے وفد کے ہمراہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے تھے۔

جس کے بعد ملک بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا اور مسجد نبوی میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے بازی کرنے اور ان سے بدتمیزی کرنے پر شہریوں کی جانب سے دو الگ الگ مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں عمران خان، شیخ رشید اور ان کے بھتیجے سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمات درج ہونے کے بعد اپوزیشن نے دعوی کیا کہ یہ مقدمات حکومت کی ایما پر سیاسی انتقام کے طور پر درج کیے گئے ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ مسجد نبوی واقعے پر حکومت توہین مذہب مقدمات کے غلط استعمال کی حامی نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان