اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کو قتل کی دھمکیاں

سیاسی ومذہبی طور پر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم اسرائیلی معاشرہ صرف فلسطینی مزاحمت کی قیادت کے قتل پر متحد دکھائی دیتا ہے۔

غزہ کی پٹی میں فلسطینی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحییٰ السنوار 30 اپریل  2022 کو غزہ شہر میں ایک اجلاس کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

یہ تحریر مصنف کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے

 

اسرائیل ان دنوں تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے کہ جس میں صہیونی سیاسی قیادت قومی سلامتی سے متعلق نہایت اہم معاملات پر باہم دست وگریباں ہے۔

اسی باہمی کشمکش کے تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم کو ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں انہیں جان سے مارنے کی دھمکی کو معنی خیز بنانے کی غرض سے پسٹل کی گولی بھی مراسلے کے ہمراہ بجھوائی گئی۔

سکیورٹی حکام نفتالی بینیٹ کو بھیجے جانے والے دھمکی آمیز خط کی تحقیقات میں مصروف ہیں، تاہم دوسری جانب میڈیا کو ان تحقیقات سے متعلق خبر شائع کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔

اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی کی تحقیقات کرنے والے داخلی سلامتی کے ادارے ’شین بیت‘ کی ہدایت پر نفتالی بینیٹ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

اس تمام پیش رفت میں یہ عقدہ ابھی تک کھل نہیں سکا، آیا صہیونی وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ ارسال کردہ دھمکی کے مندرجات سے آگاہ ہیں؟ یا ان کی معلومات صرف سرکاری بیانیہ تک ہی محدود ہیں!

دھمکی آمیز مراسلے سے اسرائیلی سکیورٹی کا بھرم بھی کھل گیا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کی دھمکیوں کے ساتھ پسٹل کی گولیاں بھجوانے والا فرسٹ فیملی کی تمام نجی تفصیلات سے آگاہ دکھائی دیتا ہے۔

اسرائیلی فرسٹ فیملی کو ملنے والی قتل کی دھمکی کے تل ابیب کے سیاسی منظر نامے پر براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں جہاں سیاسی کشیدگی اور جماعتی تفریق دونوں عروج پر ہیں۔

فلسطینی قیادت کا قتل

اسرائیل نے دگرگوں قومی سلامتی کا پول کھلنے سے پیدا ہونے والی خجالت مٹانے کے لیے ایک نیا شوشا چھوڑا ہے۔

تل ابیب کے قریب العاد میں بسائی گئی غیر قانونی یہودی بستی کے آبادکاروں پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے چاقو حملوں اور نفتالی بینیٹ کو قتل کی دھمکیوں کا توڑ کرنے کا کی غرض سے اسرائیلی کارپردازوں نے اندرون اور بیرون ملک فلسطینی قیادت کو قتل کی جوابی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔

یہ دھمکیاں اب اسرائیل کے سرکاری ٹی وی پر رائے عامہ کے جائزوں کی صورت میں چلائی جا رہی ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سربراہ یحییٰ السنوار کو بھجوائے گئے پیغام میں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہے۔

حماس نے غرب اردن کے علاقے ارئیل کی غیر قانونی یہودی میں آباد کاروں کے خلاف حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کارروائی کو رمضان المبارک اور اپریل میں یہودی عید فصح کے موقع پر المسجد الاقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا ردعمل بتایا تھا۔

ادھر گذشتہ مہینے کے اواخر میں ہی یحییٰ السنوار نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل نے اگر مسلمانوں کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کی تنظیم یہودی آبادکاروں کے خلاف مزید ’کارروائیاں‘کر سکتی ہے۔

صہیونی تجزیہ کار دعوی کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے 74 ویں یوم تاسیس [النکبہ] کے موقع پر یحییٰ السنوار کے یہی اعلانات اسلامی جہاد کے مزاحمت کاروں کی العاد میں ’کارروائی‘ کا محرک بنے۔

یہاں اس حقیقت کا بیان برمحل معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اور مذہبی طور پر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم اسرائیلی معاشرہ اگر کسی ایک بات پر متفق اور متحد دکھائی دیتا ہے تو وہ حماس کی قیادت کا قتل ہے۔

تاہم اسرائیل کے بعض سیاسی مبصرین اس حقیقت کا بھی برملا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ النسوار کے قتل سے صہیونی ریاست کے سکیورٹی چیلجنیز تو شاید ختم نہ ہوں، تاہم ان کے قتل سے اسرائیلی عوام کے دلوں میں انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

یروشلیم پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی دانشور ہرب کینون خبردار کر چکے ہیں کہ ’مزاحمتی گروپوں کی طرف سے تل ابیب پر راکٹ حملوں کی بارش جیسی دھمکیوں کو سنجیدہ لینا چاہئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے ایک حالیہ بیان میں قابض اسرائیلی حکام کو خبردار کیا ہے کہ اگر تل ابیب نے تنظیم کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا تو ’حماس کا لرزہ خیر ردعمل پورے خطے کو اپنی لیپٹ میں لے، لے گا۔‘

خطے میں بھونچال کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے مزاحمتی تنظیمیں اپنے ہی تیارکردہ جدید ترین ڈرونز استعمال کر سکتی ہیں۔ رمضان المبارک میں جمعہ الوداع کے موقع پر منائے جانے والے انٹرنیشنل القدس ڈے کے موقع پر ہی ’جنین ‘ نامی ان ڈرونز کی نمائش کی گئی۔

اسرائیل ماضی میں بھی اپنے مخالفین کے مقبوضہ فلسطین کے اندر اور بیرون ملک قتل کی کارروائیوں کا ارتکاب کر چکا ہے۔ سنہ دو ہزار میں بپا ہونے والے انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد سے ایسی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی۔

تل ابیب کے پاس فلسطینی مزاحمت کاروں کو قتل کرنے کی اہلیت تو موجود ہے تاہم اسرائیل کی سیاسی قیادت اسے عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔

2004 میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو نماز فجر کے بعد غزہ کی پٹی میں وہیل چیئر پر اپاچی ہیلی کاپٹر سے نشانہ بنایا گیا، اس ہائی پروفائل قتل کے باوجود اسرائیل کی نام نہاد سلامتی آج بھی خطرات سے دوچار ہے۔

لبنان میں اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ کے جنرل سکیرiٹری سید عباس الموسوی کا قتل بھی مطلوبہ نتائج لانے کے بجائے تل ابیب کے لیے وبال جان ثابت ہوا کیونکہ الموسوی کے جانشین سید حسن نصر اللہ اسرائیل کے لیے اپنے پیش رو سے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوئے۔

گذشتہ دو مہینوں کے دوران فلسطینیوں کے معمولی نوعیت کے حملوں میں کم سے کم 19 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں۔ ایسے واقعات کے سدباب میں ناکامی سے اسرائیل کی مایوسی جھلکتی ہے۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران مسجد اقصیٰ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے مزاحمتی قیادت کے خاتمے کی پالیسی کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔

اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ کے نامور کالم نگار گیڈیون لیوی کہتے ہیں ’کہ یحییٰ السنوار بڑا دشمن نہیں، بلکہ ان کا جانشین اسرائیل کا حقیقی معنوں میں دشمن ہو گا۔ ‘

ماضی میں اسرائیل نے حماس کے نوجوان کمانڈر یحییٰ عیاش کو قتل کیا، لیکن اس کے ردعمل میں ہونے والے استشہادی آپریشنز میں اب تک 60 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں۔

ہماری رائے میں اہدافی حملوں میں فلسطینی قیادت کا خون قلیل المدتی نتائج ضرور دکھا سکتا ہے، تاہم ایسے اقدامات اسرائیل کو درپیش طویل المدتی سکیورٹی چیلنجز ختم کرانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ