یہ تو معلوم ہو گیا کہ سکھوں پر حملہ داعش نے کیا: تفتیشی افسر

خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشتگردی کے مطابق وہ ملزمان کے نام، سکونت اور خاندانوں کا سراغ لگانے کے لیے تمام جدید ٹیکنیک بروئے کار لاتے ہوئے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر مشترکہ تحقیقات کریں گے۔

دو سکھ تاجروں کے قتل کے خلاف 15 مئی کو پشاور میں قلعہ بالا حصار کے سامنے سکھ برادری کی جانب سے احتجاجی دھرنا دیا گیا (تصویر: یوتھ سنگھ سبھا)

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں دو سکھ تاجروں کے قتل ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش خراسان نے قبول کر لی ہے۔

کالعدم تنظیم داعش خراسان نے واقعے کی ذمہ داری اپنی ویب سائٹ ’اعماق‘ پر جاری ایک بیان میں قبول کی ہے۔

پشاور کے علاقے سربند میں دو سکھ تاجروں کے قتل کا وقعہ  15 مئی کو پیش آیا جہاں ان دونوں تاجروں کو کلاشنکوف سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشتگردی کے مطابق، تاحال ان کا کام تمام نہیں ہوا، اور وہ ملزمان کے نام، سکونت اور خاندانوں کا سراغ لگانے کے لیے تمام جدید ٹیکنیک بروئے کار لاتے ہوئے متعلقہ اداروں کے ساتھ  مل کر مشترکہ تحقیقات کریں گے۔

تھانہ انسدا دہشتگردی کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایف آئی آر  جس کو مقتول رنجیت سنگھ کے بھائی گوروندر سنگھ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے، میں ملزم کی تفصیلات سے متعلق خانہ خالی رکھا گیا ہے۔

تاہم تفتیشی افسر کامران احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ حملہ داعش نے کیا، لیکن ملزمان کے نام ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔‘

پشاور میں محکمہ پولیس کے انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اشتیاق احمد مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا پولیس نے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر  ایسے اقدامات اور  حکمت عملی اختیار کی ہے، جس کی بدولت وقتاً فوقتاً داعش اور  تحریک طالبان کی کارروائیوں کو  ناکام  بنایا جاتا رہا ہے۔

’اسی تناظر میں حال ہی میں ایک خودکش بمبار کا حملہ ناکام بنانا اور  مقابلے میں دو  دہشتگرد جن میں ایک کوچہ رسالدار دھماکے کا ماسٹر مائند تھا کو ہلاک کرنا متذکرہ اقدامات کی بدولت ممکن ہوا۔‘

سکھ کمیونٹی کی ایک فلاحی تنظیم  ’یوتھ سنگھ سبھا‘ کے مطابق، خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں تقریباً 12 سو سے زائد سکھ گھرانے ہیں، جن میں سے زیادہ تر افراد تجارت سے وابستہ ہیں۔

پشاور میں سنگھ سبھا گردوارے کے چئیرمین اور  ڈسٹرکٹ تحصیل ممبر پرویندر سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں میں صرف سکھ کمیونٹی کے 22 لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سکھوں کو کبھی اس صوبے میں مسلمانوں کی جانب سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

’دراصل اقلیتوں کو نشانہ بناکر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ اقلیتوں کو زیادہ تحفظ دیں۔‘

پرویندر سنگھ نے کہا کہ مقتولین رنجیت سنگھ اور گلجیت سنگھ نے کبھی کمیونٹی کے کسی تحریک یا سرگرمیوں میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ ’صبح دکان کھولی اور شام کو بند کرکے گھر چلے گئے، نہ کسی سے کبھی جھگڑا نہ غیر ضروری لین دین۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔‘

مقتول رنجیت کے بھائی گورویندر سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رنجیت ان کے بڑے بھائی تھے، ان کی رہائش ڈبگری گارڈن میں ہے لیکن وہ بنیادی طور پر ضلع خیبر کی باڑہ تحصیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

گورویندر نے بتایا کہ سربند کے بٹہ تھل میں ان کی مصالحے کی دکانیں تھیں۔ ’میری دکان بھائی سے کچھ فاصلے پر تھی، یہی وجہ ہے کہ واقعے کے وقت میں نے صرف فائرنگ کی آواز سنی لیکن حملہ آوروں کو نہ دیکھ پایا۔‘

گورویندر کے مطابق، مقتول گلجیت سنگھ ان کا رشتہ دار اور  پڑوسی تھا، جن کے تین بچے جب کہ رنجیت سنگھ کے پانچ بچے ہیں۔

گذشتہ روز  خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واقعہ پشاور کا پرامن ماحول اور بین المذاہب ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان