کشمیر میں طلاق اندراج: ’فیس نہ دینے والے میاں بیوی رہیں گے؟‘

ایک سرکاری دستاویز کے مطابق تمام مسالک کے مسلمان شہریوں کی طلاقیں اس قانون کے تحت رجسٹر ہوں گی جسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔

طلاق کی رجسٹریشن کا اختیار نکاح رجسٹرڈ کرنے والے محکمہ مذہبی امور کے مقرر کردہ سب رجسٹرار کے پاس ہی ہو گا (تصویر: پکسابے)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے نئے قواعد کے تحت نکاح کے طرز پر اب طلاق کی بھی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا ہے اور ابتدا میں طلاق رجسٹریشن کے لیے 1550 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔

دو سال قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے منظور ہونے والے ’نکاح اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 2020‘ کے تحت بنائے گئے ان قواعد کے مطابق اب نکاح کے ساتھ ساتھ طلاق کی بھی رجسٹریشن لازمی ہو گی اور اس کا اختیار نکاح رجسٹر کرنے والے محکمہ مذہبی امور کے مقرر کردہ سب رجسٹرار کے پاس ہی ہو گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ایک سرکاری دستاویز کے مطابق تمام مسالک کے مسلمان شہریوں کی طلاقیں اس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں گی جسے لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ طلاق رجسٹر نہ کروانے پر ایک ماہ تک قید بامشقت یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔

محکمہ مالیات کی جانب سے محکمہ مذہبی امور کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق طلاق رجسٹریشن فیس میں 500 روپے تجوید القران ٹرسٹ اور 50 روپے کشمیر لبریشن ٹیکس بھی شامل ہیں جو سرکاری خزانے میں جمع کروانے ہوں گے۔

اگرچہ اس مکتوب میں صرف 550 روپے کا ہی تذکرہ ہے تاہم محکمہ مالیات کے ایک عہدیدار فرید خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ طلاق رجسٹریشن فیس مقرر کرنے کا علیحدہ سے فیصلہ ہونے کے بعد مالیاتی منظوری دی جا چکی ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں کابینہ سے منظوری کے بعد اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو جائے گا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نکاح کی رجسٹریشن کے لیے 2050 روپے فیس مقرر ہے جس میں 500 روپے تجوید القران ٹرسٹ ٹیکس اور 50 روپے کشمیر لبریشن ٹیکس شامل ہے۔ نئے قانون کے تحت نکاح کی رجسٹریشن فیس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی البتہ طلاق کی رجسٹریشن کے لیے 1550 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔

محکمہ مذہبی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر مفتی تنویر احمد نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قانون 2020 میں قانون ساز اسمبلی سے منظور ہوا اور اس کے تحت بننے والے قواعد کی منظوری کا عمل جاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں جملہ قواعد کی حکومتی منظوری کے بعد یہ ایکٹ مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا اور نکاح کے ساتھ ساتھ طلاق کی بھی رجسٹریشن شروع ہو جائے گی۔

ان کے بقول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس سے قبل ایسا کوئی قانون نافذ نہیں تھا جس کے تحت طلاق رجسٹر ہو بلکہ عدالت سے جاری ہونے والی ڈگری، سٹام پیپر یا سادہ کاغذ پر لکھا گیا طلاق نامہ ہی مستند مانا جاتا تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب طلاق واقع ہونے کے بعد نکاح نامے کے طرز پر دونوں فریقین کو ایک ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔

ان کے مطابق، عدالت یا عدالت سے باہر کسی بھی صورت میں واقع ہونے والی طلاق کی رجسٹریشن لازم ہو گی۔

’اس قانون کے فوری اور سخت نفاذ میں کئی مشکلات حائل ہو سکتی ہیں اس لیے اس بارے میں پہلے عوامی سطح پر آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے بقول نکاح کی طرز پر طلاق رجسٹرڈ نہ ہونے کہ وجہ سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقات فریقین طلاق دینے کے بعد انکاری ہو جاتے ہیں اور اسی طرح نکاح پر نکاح کے بھی کئی کیس سامنے آتے ہیں۔

انہیں توقع ہے کہ طلاق کی رجسٹریشن کا عمل ان پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

محکمہ مالیات کے عہدیدار فرید خان کو توقع ہے کہ طلاق کی رجسٹریشن کا قانون نافذ ہونے کے بعد طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب لوگوں کو علم ہو گا کہ انہوں نے صرف زبانی طور پر طلاق نہیں دینی بلکہ سرکاری دفاتر کے تین چار چکر بھی لگانے ہیں اور سرکار کو پیسے بھی دینے ہیں تو وہ طلاق دینے یا لینے سے پہلے ایک دو بار سوچیں گے ضرور۔‘

دوسری جانب سوشل میڈیا پر صارفین اس حکم نامے پر دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر صارفین حکومت کے اس فیصلے کو طنز اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تاہم چند ایک اس کے حامی بھی ہیں۔

علامہ اقبال اختر نعیمی نامی ایک عالم دین نے سوال اٹھایا کہ کیا ٹیکس (فیس) جمع نہ کروانے والوں کی طلاق واقع ہو گی یا وہ بدستور میاں بیوی رہیں گے؟ اور کیا دونوں کو علیحدہ علیحدہ فیس ادا کرنا ہو گی یا ایک ساتھ؟

صحافی عابد صدیق نے اس فیصلے کو حکومت کی جانب سے ’تحریک آزادی کشمیر کے لیے فنڈ ریزنگ کا منصوبہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’حکومت کے اس فیصلے سے جہاں فنڈ اکٹھا کرنے میں آسانی ہو گی وہاں عام شہریوں کی تحریک آزادی میں دلچسپی کے رحجان کا بھی پتہ چلے گا کہ شہری اس تحریک سے کتنے مخلص ہیں اور طلاق کی شرح میں کس قدر اضافہ کرتے ہیں۔‘

سماجی کارکن راجہ آفتاب نے لکھا کہ ’اب طلاق پر بھی تجوید القرآن ٹرسٹ ٹیکس لگا دیا۔ نکاح بھی مشکل اور طلاق پر بھی کمائی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن دور نہیں کہ فی سانس ٹیکس عائد ہو گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان