طلاق کا مقدمہ: شوہر پر آٹھ ہزار سال اسرائیل میں گزارنے کی پابندی

عدالت نے حکم دیا ہے کہ شوہر بچوں کی پرورش کے لیے یا تو 30 لاکھ ڈالر ادا کریں یا پھر 31 دسمبر 9999 تک اسرائیل ہی میں رہیں۔

خاتون نے اسرائیل میں طلاق کے قوانین جن کو انسانی حقوق کے کارکن ’سخت اور ضرورت سے زیادہ‘ قرار دیتے ہیں، کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا (تصویر: پیکسلز)

ایک اسرائیلی عورت نے اپنے آسٹریلوی خاوند کے خلاف طلاق کا مقدمہ دائر کیا ہے جس کے بعد خاوند پر آٹھ ہزار سال تک اسرائیل چھوڑنے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

 news.com.au  کی رپورٹ کے مطابق 44 سالہ نوم ہیوپرٹ کو عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ یا تو مستقبل میں بچوں کی پرورش کے لیے 30 لاکھ ڈالر سے زائد ادا کریں یا 31 دسمبر 9999 تک اسرائیل ہی میں رہیں۔

اپنی ناراض بیوی کے اسرائیل جانے کے بعد آسٹریلوی شہری 2012 میں اپنے دو بچوں کے قریب رہنے کے لیے گیا تھا۔ خاتون نے اسرائیل میں طلاق کے قوانین جن کو انسانی حقوق کے کارکن ’سخت اور ضرورت سے زیادہ‘ قرار دیتے ہیں، کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا۔

انہوں نے کہا:’2013 سے میں اسرائیل میں بند ہوں،‘ اور مزید بتایا کہ وہ ان آسٹریلوی شہریوں میں سے ایک ہیں جنہیں ’اسرائیلی انصاف کے نظام نے صرف اس وجہ سے تنگ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی خواتین سے شادی کی تھی۔‘

ویب سائٹ کے مطابق عدالت نے ان کے خلاف ایک نام نہاد ’سٹے آف ایکزٹ‘ کا حکم جاری کیا ہے جس میں وہ اس وقت تک چھٹی یا کام کے لیے بھی ملک چھوڑ سکتے جب تک وہ اپنے دو بچوں کی عمر18سال ہونے تک کی دیکھ بھال کے لیے ’مستقبل کا قرض‘ ادا نہیں کرتے۔

اب وہ اپنی کہانی دنیا کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ’دوسرے آسٹریلینز کی مدد کی جا سکے جو اس تقریباً جان لیوا تجربے کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

ایک آزاد برطانوی صحافی جو اس معاملے پر بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں نے کہا کہ سینکڑوں آسٹریلوی شہری اس مسئلے کا سامنا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرین عزیزی نے کہا: ’مجھے کسی غیر ملکی سفارت خانے سے نمبر نہیں مل سکے۔‘

مصنف نے اسرائیل کے خاندانی قوانین کے تحت یرغمال بنائے گئے اپنے شوہر کو بچانے کے لیے ایک خاتون کی لڑائی کے بارے میں ایک کتاب ’ساور ملک اینڈ سٹولن ہنی‘لکھی ہے اور یدایتکار سورین لوکا کی ہدایتکاری میں بننے والی ایک دستاویزی فلم بھی اس پر مبنی ہے، جسے ’نو ایگزٹ آرڈر‘ کہا جاتا ہے۔

انہوں نےاپنے شوہر کے اسرائیل میں پھنسنے کے بعد شہادتیں جمع کرنا شروع کر دیں جب وہ اپنے بچوں سے ملنے وہاں گیا تھا۔

صنفی مسائل پر لکھنے والے بلاگر ایڈم ہرسکو نے 2013 میں ٹائمز آف اسرائیل میں اپنے مضمون میں غیر ملکیوں اور خاندانی قوانین پر سفری پابندی کو ’بھیانک‘ قرار دیا تھا۔

انہوں نے لکھا: ’ اگر آپ اسرائیل جانے اور وہاں خاندان شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خاندانی قوانین مردوں کے خلاف سخت اور حد سے زیادہ امتیازی ہیں۔ اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ آپ کے ساتھ ایک مجرم کی طرح سلوک کیا جائے گا اور آپ کو سیاح/اے ٹی ایم  کا درجہ دے دیا جائے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا