امریکہ کی لاڈلے اسرائیل سے باز پرس!

یہودی بستیاں ناجائز صہیونی ریاست کے وجود کو جواز فراہم کرنے والی شرط آبادی کے ساتھ بالواسطہ سکیورٹی کا بھی اہم ذریعہ ہیں۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں 28 اکتوبر 2021 کو فلسطینی شہر رام اللہ کے قریب گیوت زیف کی اسرائیلی بستی میں جاری تعمیراتی کام کا ایک منظر۔ اسرائیل نے 27 اکتوبر کو مقبوضہ مغربی کنارے میں 3000 سے زائد آبادکاروں کے مکان تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھایا تھا، اس اقدام کی فلسطینیوں نے مذمت کی تھی جو امریکہ کی جانب سے اس طرح کی تعمیر پر زبردستی تنقید کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا (اے ایف پی)

مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکہ کی سابق ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے حال ہی میں ایک بیان کے ذریعے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر پر اپنی ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا۔ اسے سیاسی پنڈت ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی سے ہٹ کر ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر دیکھتے ہیں جن میں نئی بستیوں کی تعمیر کی کھل کر حمایت کی جاتی تھی۔

بین الاقوامی قانون میں ممانعت کے باوجود فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آئے روز قائم ہونے والی یہودی بستیوں سے متعلق جو بائیڈن انتظامیہ کے بیان کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شرق اوسط سے متعلق حالیہ امریکی انتظامیہ کی ناکام پالیسی کے بعد واشنگٹن کو فیس سیونگ کے لیے ایسا ہی لچھے دار بیان درکار تھا۔

تاریخ کے طالب علم اور مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والوں سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ  جون 2009 کے آغاز میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورہ مصر کے دوران جن دیگر میٹھی میٹھی باتوں کے باعث اپنی مشہور زمانہ تقریر میں جان اور مسلم دنیا کے لیے دلچسپی پیدا کی ان میں فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کے لیے بستیوں کے قیام کا ذکر بھی شامل تھا۔

اگرچہ اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے زبانی جواب اور عملی اقدامات سے جلد ہی صاف معلوم ہو گیا کہ یہودی بستیوں کے خاتمے کی بات محض بات کی حد تک تھی، لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ صدر کلنٹن اور صدر جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت میں بھی اسرائیل سے اسی نوعیت کے زبانی مطالبات کیے جاتے رہے یا اس جانب توجہ دلائی جاتی رہی۔

موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی کابینہ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تعمیرات کے وزیر زیو الکن کے اس بیان کہ ’مغربی کنارے میں یہودیوں کی آبادی بڑھانے کے مقصد اور ہیں، صہیونی وژن کے لیے یہ تعمیرات ضروری ہیں۔ میں یہودیہ اور سامریہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر برقرار رکھوں گا' کے بعد بلی کے تھیلے سے باہر آنے میں دیر نہیں لگی۔

اگلے ہی روز اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے درمیان ’کشیدہ ماحول‘ میں ہونے والی ٹیلفونک گفتگو نے بھی جو بائیڈن کے اسرائیل کو کیے جانے والے پند ونصائح کی حقیقت آشکار کر دی۔

امریکہ کے دونوں سابق صدور کا موقف تھا کہ یہودی بستیوں کے قیام اور تسلسل سے امن عمل متاثر ہو گا۔ اس لیے اسرائیل کو اس سلسلے میں اپنی پالیسی میں ’نظر آنے والی تبدیلی کرنا ہوگی۔‘

آج سے تین دن قبل بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں  کچھ ایسا ہی رام کتھا سنائی کہ 'ہم بستیوں کی توسیع کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ یہودی بستیاں کشیدگی کو کم کرنے اور قیام امن کو یقینی بنانے کی کوششوں سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتیں، اور اس سے دو ریاستی حل کے امکانات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔‘

لیکن ’خود کردہ لاعلاج نیست‘ کے مصداق یہ یہودی بستیاں چونکہ امریکی آشیر باد اور حمایت کے ساتھ شروع کی گئی تھیں اس لیے امریکی ’اخلاقی دروس‘ کا اسرائیل پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو کہ دیگر مدآت کے علاوہ اسرائیل کے لیے امریکی امداد کا خطیر حصہ ان بستیوں کی تعمیر میں بھی کام آ چکا ہے۔

صرف یہی نہیں کہ ان یہودی بستیوں کے قیام کے لیے امریکی امداد اسرائیل کے کام آتی رہی بلکہ امریکی ضمانت پر مالیاتی اداروں سے بھی اسرائیل کو اسی مقصد کے لیے امداد ملتی رہی۔ جس کی ایک مثال 1990 میں قرض لیے گئے وہ دس ارب ڈالر ہیں جو اسرائیل نے دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں کی آبادکاری کے لیے امریکی ضمانت کی بنیاد پر لیے تھے۔

امریکہ کہ اس ’خواہش‘ کے پورا ہونے کے امکان اس لیے بھی کم ہے کہ جب امریکہ میں صدر بل کلنٹن کا دور صدارت تھا تو اسرائیل میں نفتالی بینیٹ کے پیش رو نیتن یاہو کی حکومت تھی۔ نیتن یاہو نے اپنے بدنام زمانہ وزیر دفاع ایریل شیرون سے ان یہودی بستیوں کے قیام اور تحفظ کے سلسلے میں خصوصی طور پر کام لیا تھا۔

نیتن یاہو کی ہدایت پر شیرون نے یہودی بستیوں کو اسرائیل کی داخلی سلامتی کا ایشو بنا کر پیش کیا اور یہ تجویز کیا کہ جہاں بھی شہروں کے داخلی راستوں پر ممکن ہو اور خصوصا مسلم آبادیوں کے داخلی راستوں پر یہودی آبادکاروں کی چوکیاں قائم کی جائیں، تزویراتی اعتبار سے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ جہاں بھی کوئی پہاڑی چوٹی یا اونچائی میسر آئے جائے اس نوعیت کی یہودی بستی یا چوکی قایم کری دی جائے۔

ماضی میں بھی یہ بات نیتن یاہو حکومت کے پیش نظر رہی کہ ایسی تمام جگہیں پر کر لی جائیں اور ان تمام جگہوں پر جو سٹرٹیجی کے اعتبار سے اہم ہیں مگر اب تک خالی ہیں ان پر فورا اس نوعیت کے ’بلڈ اپ‘ کر لیے جائیں تاکہ کل کلاں مذاکرات میں ’زمینی حقائق‘ اسرائیلی حکومت کے حق میں ہوں۔

یہ یہودی بستیاں نئی بات نہیں بلکہ اسرائیل کے ناجائز قیام سے بھی پہلے ان کا آغاز ہو گیا تھا۔ اسی مقصد کے لیے فلسطینیوں کو ان کے مکانات، دیہات اور شہروں سے بےدخل کرنے کے غیرقانونی اور ظالمانہ اقدام، قیام اسرائیل سے پہلے ہی شروع کر دیے گئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی ہر حکومت کے لیے یہودی بستیاں جہاں سکیورٹی کا ایک بالواسطہ ذریعہ ثابت ہوں گی وہیں ناجائز صہیونی ریاست کے وجود کو جواز دینے کی شرط آبادی کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی بنیں گی۔ نیز یہ علاقے فلسطینیوں کے مقابلے میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب بہتر کرنے کا باعث ہوں گی۔

یہودی بستیوں کو اسرائیلی حکومتیں اپنی سیاسی اور انتخابی ضرورت کے لیے بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہر حکمران جماعت اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کے لیے دنیا بھر سے یہودیوں کو ’گھیر گھار‘ کے لاتی رہی۔

اس لیے ایسا کوئی مطالبہ اسرائیل کے کسی بڑے یا چھوٹے سرپرست کی طرف سے عالمی برادری کی آنکھوں میں محض دھول جھونکنے کے لیے ہی کیا جاتا رہا ہو، اتل ابیب کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

اس میں دورائیں نہیں کہ یہودی بستیاں سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کی اولین علامت ہیں۔ اگر ان کا ناجائز ہونا تسلیم کر لیا گیا تو خود اسرائیلی ریاست کے ناجائز ہونے کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لہذا اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسرائیل نے اس سلسلے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کر لی ہے تو یہ بھولپن اور سادگی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی اسرائیلی حکومت ایسا ’رسک‘ نہیں لے سکتی جو کل کلاں اس کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے ایک چیلنچ کی صورت اختیار کر جائے۔

جہاں تک اسرائیلی حکومت کے ان دعوؤں کا تعلق ہے کہ اسرائیل نے یہودیوں کے لیے حالیہ دنوں میں اعلان کردہ تین ہزار رہائشی یونٹس کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دعویٰ واقعاتی اعتبار سے درست ثابت نہیں ہوتا۔

اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ کہ جن یہودی بستیوں میں یہ رہائشی یونٹس تعمیر کیے جانے تھے، ان کی حیثیت باضابطہ بستیوں کی نہیں بلکہ یہ غیرمنظم اور بکھری بکھری سی بستیاں ہیں اور جن کی آبادی بھی نسبتاً کم ہے۔ نیز یہ کم اہم جگہوں پر واقع ہیں۔

سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو اسرائیل جون 2002 میں سامنے آنے والے روڈ میپ کے بعد بھی مسلسل یہودی بستیاں بنانے میں مصروف رہا اور جس نے امریکی صدور کی معصومانہ اور بےضرر سی خواہش میں تعاون نہ کیا اور ’روڈ میپ‘ کے بعد سے اب تک یہودی چوکیوں کی تعداد 232 تک لے گیا، وہ اچانک اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟

امریکہ اس معاملے میں خود بھی دوغلے پن کا شکار ہے کہ واشنگٹن یہودی بستیاں آباد کرنے کے لیے ہر طرح کی امداد بھی فراہم کرتا ہے اور ان کی توسیع کے خلاف زبانی جمع خرچ کی کوشش میں بھی لگا رہتا ہے۔

اسرائیل کی پوری توجہ اس وقت عظیم تر بیت المقدس کے منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کرنے پر مرکوز ہے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ بیت المقدس کو مکمل طور پر یہودی شہر بنا دیا جائے اور وہاں سے مسلمانوں کے آثار مکمل طور پر مٹاتے ہوئے مسلمانوں کو اس شہر میں بےاثر اور بے بس بنا دیا جائے۔

اس لیے تل ابیب کی تمام تر کد و کاش کا محور یہ ایجنڈا ہے کہ بیت المقدس کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت رکھتے ہوئے اس میں اپنی پوزیشن ہر حوالے سے مضبوط اور بہتر کر لی جائے۔

یہ پیش بندی اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسرائیل تاریخی حقیقتوں پر ’زمینی حقائق‘ کا پردہ تاننا چاہتا ہے تاکہ عالمی اداروں، فورموں اور عالمی برادری کے بیت المقدس کے متعلق روایتی موقف کو بدلنے کے لیے انہیں یہ باور کرا سکے کہ اب بیت المقدس وہ بیت المقدس نہیں رہا۔ وہاں کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری موقف اپنائے اور اسرائیل پر دباؤ  کم کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ