بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ کھولنے، فلسطینی امداد کا اعلان

غزہ میں جنگ بندی کے بعد امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اسرائیل اور فلسطین کے سرکاری دورے میں کہا ہے کہ امریکہ ’دو ریاستی حل‘ پر یقین رکھتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے فلسطینیوں کے لیے بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ دوبارہ کھولنے اور چار کروڑ ڈالر تک کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے ہٹتے ہوئے اور مغربی کنارے کی فلسطینی حکومت کو مضبوط بنانے کے مقصد سے امریکی وزیر خارجہ نے خطے میں اپنے پہلے سرکاری دورے میں یہ اعلان کیے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گذشتہ ہفتے 11 دن کی شدید لڑائی کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے بلنکن اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملے۔ انہوں نے غزہ کی بحالی کے لیے ’بین الاقوامی تعاون‘ حاصل کرنے کی کوششوں کا دعدہ کیا اور کہا اس بات کو یقینی بنایا جائے گا اس میں سے کوئی بھی امداد حماس تک نہ پہنچے۔

انہوں نے دونوں فریقین سے ہمدردی کا اظہار کیا مگر طویل مدتی امن کے لیے کسی نئے امریکی منصوبے کی بات نہیں کی، شاید اس لیے کہ سابق حکومتوں کی اس حوالے سے کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ تاہم انہوں نے’بہتر ماحول‘ بنانے کی امید ظاہر کی جس سے ایک دن امن مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔

مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہا: ’جیسے میں نے صدر کا بتایا، میں یہاں یہ ظاہر کرنے آیا ہوں کہ امریکہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ ایسے تعلقات جو باہمی احترام اور اس مشترکہ یقین پر قائم ہوں کہ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں سلامتی ، آزادی، مواقع اور وقار کے مساوی مستحق ہیں۔‘

ایک اہم علامتی اقدام میں انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ بیت المقدس میں اپنا قونصل خانہ دوبارہ کھولے گا، جو کئی سالوں سے فلسطینیوں کے لیے ایک سفارت خانے جیسا ہی تھا۔

سابق صدر ٹرمپ نے 2018 میں تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد 2019 میں اس دفتر کے اختیارات میں کمی کرتے ہوئے اسے اسرائیل میں امریکی سفیر کے ماتحت کر دیا تھا۔

فلسطین، جو مشرقی بیت المقدس کو اپنا داراحکومت مانتا ہے، نے اس اقدام پر نالاں ہوکر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سے تمام تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

بلنکن نے قونصل خانے کے کھلنے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی مگر کہا کہ اعلیٰ سفارت کار مائیکل ریٹنی، جو پہلے بیت المقدس میں قونصل جنرل رہ چکے ہیں، جلد اس خطے میں آئیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ نے فلسطین کے لیے 38 کروڑ 50 لاکھ ڈاکر کی مزید امداد کا اعلان بھی کیا۔ بائیڈن انتظامیہ فلسطین کے لیے کل 36 کروڑ کی امداد کا وعدہ کر چکی ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ تمام امداد ختم کر چکی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلنکن نے منگل کو جس امداد کا اعلان کیا اس میں غزہ کے لیے 55 لاکھ ڈالر ہنگامی امداد بھی شامل ہے، جہاں 11 دن تک جاری رہنے والی اسرائیلی بمباری میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور املاک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔  

بلنکن نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ امداد حماس کے ہاتھ میں نہ پہنچے جسے وہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔

امریکہ صدر محمود عباس کی حکومت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عباس فلطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں، جس کی فورسز کو غزہ سے 2007 میں تب  ہٹنا پڑا جب حماس نے وہاں اقتدار سنبھال لیا۔ اب وہ صرف مغربی کنارے کے انتظامی امور سنبھالتے ہیں۔

ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق فلسطینیوں میں غیر مقبول ہونے کے باوجود انہیں بین الاقوامی سطح پر  فلسطینیوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔

اینٹنی بلنکن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو سے بھی ملاقات کی جس میں ان کا کہنا تھا: ’ہم جانتے ہیں کہ تشدد کی جانب واپسی کو روکنے کے لیے ہمیں بنیادی مسائل اور چیلجز کو دیکھنا ہوگا۔ اور یہ غزہ میں سنگین صورت حال سے نمٹنے اور بحالی کا کام شروع کرنے سے ہوگا۔‘

 

انہوں نے اصرار کیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے مگر انہوں نے دونوں فریقین کے لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے کی امید میں امن مذاکرات کے لیے سنگ بنیاد بنانے پر کام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر دنیا کی طرح صدر بائیڈن کی انتظامیہ کو بھی یقین ہے کہ اس تنازے کا صرف ’دو ریاستی حل‘ ہے۔

انہوں نے دونوں فریقین کو ایسے اقدامات سے گریز کرنے کا کہا جس سے تشدد واپس شروع ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’کوئی بھی قدم جو دونوں فریق اٹھاتے ہیں جس سے یا تو تشدد کا خطرہ پیدا ہوتا ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالآخر دو ریاستوں کے امکان کو کمزور کرتا ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس میں آباد کاری بھی شامل ہے۔ اس میں انہدام بھی شامل ہے اس میں بے دخلی بھی شامل ہے۔ اس میں تشدد پر اکسانا بھی شامل ہے۔ اس میں دہشت گردوں کو ادائیگی بھی شامل ہے۔‘

بلنکن بدھ کو ہمسائے ممالک مصر اور اردن بھی جائیں گے جنہوں نے اس تازعے میں ثالث کا کردار ادا کیا۔

11 دن کی لڑائی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ مصر کی مدد سے ہوا، جبکہ امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے حملے کم کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا