کوک سٹوڈیو کے ’کنا یاری‘ کا ریپ والا حصہ خود لکھا: ایوا بی

لیاری سے تعلق رکھنے والی پاکستانی ریپر ایوا بی ویسے تو کئی سالوں سے ریپ موسیقی کے حلقوں میں اپنا نام بنا رہی تھیں لیکن رواں سال کوک سٹوڈیو کے گانے ’کنا یاری‘ نے انہیں مرکزی دھارے میں بھی شہریت دلا دی۔

ایوا بی کے مطابق لیاری کے لوگ انہیں بہت سپورٹ کرتے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

کراچی کے ایک پسماندہ علاقے لیاری میں جنم لینے والی ایوا بی نے اپنی موسیقی کے شوق کے لیے ہر مشکل اٹھانے کی ٹھان رکھی تھی، اور جب جذبہ ہو تو کامیابی مل ہی جاتی ہے۔

ویسے تو ایوا بی کئی سالوں سے کراچی میں ریپ موسیقی کے حلقوں میں اپنا نام بنا رہی تھیں لیکن رواں سال کوک سٹوڈیو کے گانے ’کنا یاری‘ نے انہیں مرکزی دھارے میں بھی شہریت دلا دی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ایوا بی سے لیاری میں ان کے گھر میں خصوصی گفتگو کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کا اصل نام ثانیہ سعید ہے۔

ایوا بی کے مطابق ان کے والد اداکارہ ثانیہ سعید کے بہت بڑے فین تھے۔ ان کا نام سعید ہے تو انہوں نے سوچا کہ ان کی بیٹی ہوگی تو اس کا نام ثانیہ ہوگا، تو بس یوں ان کا ثانیہ سعید رکھ دیا گیا۔

نقاب پہن کر ریپ میوزک کرنے کہ بارے میں انہوں نے کہا کہ تجویز بھائی نے دی تھی لیکن کسی حد تک یہ فیصلہ بھی ان کا اپنا ہی تھا۔

ایوا بی بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے شروع کیا تھا، تب ریپ موسیقی پاکستان میں اتنی مشہور نہیں تھی مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ ہو رہی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ بہت سے ریپر انڈرگراؤنڈ تھے اور وہ نقاب کرکے گاتے تھے تو سوچا کہ وہ بھی کرسکتی ہیں۔ 

انہوں نے بتایا: ’جب گھر والوں کو معلوم ہوا تھا بیٹی ریپ میوزک کر رہی ہے تو ڈانٹ تو نہیں پڑی مگر میرے بھائی کو بالکل بھی منظور نہیں تھا کہ گانے گاؤں، رشتے داروں نے بھی کہا کہ گانے گانا کوئی اچھی بات نہیں ہے، پھر والدہ کو بتایا کہ میوزک کرنا ہے، اس میں آگے جا سکتی ہوں، تو انہوں نے کہا کہ کرو بیٹا میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ چونکہ بھائی کو منظور نہیں تھا تو انہوں نے کافی وقت تک گانا چھوڑ بھی دیا تھا۔

’دو تین سال تک سب کچھ بند تھا پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بھائی سے بات کی، پھر میرے کچھ دوستوں نے اس سے کہا کہ تمہاری بہن اچھا ریپ میوزک کرتی ہے، وہ کرنا چاہتی ہے، اسے کرنے دو۔‘

’اس پر بھائی نے کہا کہ تم نقاب پہن کر کرو تاکہ تمہاری شکل کوئی نہ دیکھے۔ لیکن سب کو پتہ چل ہی گیا ہے کہ میں کون ہوں۔‘

ایوا بی نے تسلیم کیا کہ ان کے انداز میں ایک بغاوت ہے، کچھ اشتعال ہے، اور یہ جہاں تک جائے گا، اس کو وہیں تک لے کر جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت 23 سال کی ہیں ان دنوں بی اے کے امتحانات کی تیاری کررہی ہیں، اور وہ تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

جب انہوں نے 2015 میں ریپ میوزک شروع کیا تک وہ نویں کلاس میں تھیں۔ 

اس وقت انہوں نے امریکی ریپز ایمی نیم اور کوئین لطیفہ کو دیکھ کر شروع کیا تھا، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ کوئی لڑکی یہ موسیقی نہیں کرتی، لیکن جب گوگل میں سرچ کیا تو کوئین لطیفہ کا نام آیا تو ان کو دیکھ کر شروع کیا۔

انہوں ے بتایا: ’میں نے بلوچی ریپرز سنے تو وہ زیادہ تر لیاری کے حالات کے بارے میں بات کرتے  تھے، تو میں نے سوچا کہ میں بھی اپنے حالات کے بارے میں بات کروں، عورتوں کے حالات پر بات کی جائے کیونکہ میں زیادہ دھیان لکھنے پر رکھتی تھی۔‘

کوک سٹوڈیو کے گانے ’کنا یاری‘ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’اچانک ایک دن ذلفی بھائی (ذوالفقار جبار خان) نے فون کیا کہ آپ میرے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں، تو میں نے پوچھا کیا کام ہے، تو انہوں نے کہا کہ کوک سٹوڈیو کیفی خلیل کے ساتھ، تو میں نے کہا کہ کون نہیں کرنا چاہے گا؟‘

ایوا بی نے کہا کہ وہ اپنے سارے گانے خود ہی لکھتی ہیں اور ’کنا یاری‘ کے ریپ والے الفاظ انہوں نے خود لکھے تھے۔

اپنے گانے ’گلی گرلز‘ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پتہ نہیں کیسے مشہور ہوگیا تھا۔ ’شاید اس لیے کہ وہ پٹاری نے بنائی تھی کہ ایک گلی گرل ہے اور وہ عورتوں کے بارے میں کچھ بتا رہی ہیں، عورتوں کے مسئلے مسائل بتارہی ہے۔ تو بس وہ اس سے وجہ مقبول ہوا تھا۔‘

ایوا بی کے مطابق لیاری کے لوگ انہیں بہت سپورٹ کرتے ہیں اس لیے انہیں لگتا ہے کہ لیاری کی وجہ سے زیادہ فائدہ ہوجاتا ہے، کبھی کوئی رکاوٹ نہیں آئی لیاری کی وجہ سے۔

’ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بات نہیں ہے، کافی کمنٹ بھی آتے ہیں، تو اگر مجھے یہ چیزیں دیکھنی ہوتیں تو میں آگے کیوں آتی؟‘

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بحث چل پڑی کی امیر طبقے سے لوگوں ریپ موسیقی نہیں کرنی چاہیے اور اسے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ وہ اپنے مسائل بیان کرتے ہیں۔ 

اس حوالے سے جب ایوا بی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جس کو ریپ میوزک کی تاریخ معلوم نہیں وہ تو یہی کہے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’سب ریپرز تو مسئلے مسائل بیان نہیں کریں گے۔ نئی نسل ڈپریشن کا شکار ہے، وہ میوزک کے ذریعے خوشی ڈھونڈتی ہے، وہ میمز اور سوشل میڈیا کے ذریعے خوشی ڈھونڈتی ہے، اگر وہ کل کو امیر ہوجائیں تو کیا ریپ کرنا چھوڑ دیں گی؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی