ٹیکسس حملہ آور کا پیغام: ’بچوں کو ہوشیار رہنا چاہیے‘

امریکی ریاست ٹیکسس کے گورنر گریگ ایبٹ نے یووالڈی کے ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کرکے 21 افراد کو ہلاک کرنے والے 18 سالہ سلواڈور راموس کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیا، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے موقعے پر ہی ہلاک کر دیا تھا۔

امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر یووالڈی کے روب ایلیمنٹری سکول میں منگل (24 مئی) کو کم از کم 19 بچوں اور دو اساتذہ کو ہلاک کرنے والے 18 سالہ حملہ آور کا نام سلواڈور راموس بتایا گیا ہے۔

ریاست کے گورنر گریگ ایبٹ نے راموس کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیا، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے موقعے پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

راموس سان انتونیو سے 80 میل دور ایک چھوٹے سے قصبے کے رہائشی اور یووالڈی ہائی سکول میں زیر تعلیم تھے۔

ٹیکسس کے سینیٹر رولینڈ گٹیریز نے صحافیوں کو بتایا کہ نوجوان نے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر اشارہ دیا تھا کہ وہ حملہ کر سکتے ہیں۔

سینیٹر کے بقول حملہ آور نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا: ’بچوں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔‘

گورنر ایبٹ کے مطابق راموس نے فیس بک پر یہ بھی لکھا: ’میں ایک ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کرنے جا رہا ہوں۔‘ تاہم فیس بک نے اس دعوے پر اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیغامات ’نجی ون ٹو ون ٹیکسٹ میسجز تھے، جو خوفناک سانحے کے بعد سامنے آئے تھے۔‘

18 سالہ نوجوان نے منگل کی دوپہر سکول میں فائرنگ سے قبل فیملی ٹرک چوری کرنے اور ایلیمنٹری سکول جانے سے پہلے اپنی نانی کے چہرے کو بھی گولی سے نشانہ بنایا۔ زخمی خاتون نے خود پولیس کو کال کی، جس کے بعد انہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ راموس اس کے بعد سکول کے باہر مذکورہ ٹرک چھوڑ کر اندر داخل ہو گئے۔

پولیس اپ ڈیٹس کے مطابق سکول کھلا ہوا تھا اور حملہ آور کو روکنے کے لیے کوئی پولیس افسر موجود نہیں تھا۔

’بچے، اساتذہ جو راستے میں آیا، اس نے سب کو نشانہ بنایا‘

ٹیکسس ڈپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے کرسٹوفر اولیواریز نے بتایا: ’مشتبہ شخص سکول میں داخل ہوا اور بچوں اور اساتذہ سمیت جو بھی راستے میں آیا، اس نے سب پر فائرنگ کردی۔‘

ایلیٹ بارڈر پیٹرول کمانڈوز، کاؤنٹی ڈپٹیز اور مقامی پولیس افسران پر مشتمل ایک ٹیم بالآخر 60 منٹ بعد کمرے میں داخل ہوئی اور بارڈر پٹرولنگ ایجنٹ نے راموس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

ٹیکسس کے حکام نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ہلاک ہونے والے 21 افراد کے علاو راموس کے حملے میں مزید 17 افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان سب کو سنگین زخم نہیں آئے اور ان کی زندگیاں خطرے سے باہر ہیں۔

راموس نے اپنی 18ویں سالگرہ کے موقع پر دو AR-15 طرز کی رائفلیں قانونی طور پر خریدیں جن میں سے ایک انہوں نے فائرنگ کے واقعے میں استعمال کی۔

رولینڈ گٹیریز نے کہا: ’یہ وہ پہلا کام تھا جو انہوں نے اپنی 18ویں سالگرہ پر کیا۔‘

’دا ڈیلی ڈاٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق راموس کے انسٹاگرام پر ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اسے اسلحہ بنانے والی کمپنی ’ڈینیئل ڈیفنس‘ سے خریدی گئی اس بندوق کی رسید کی تصویر بھیجی تھی۔

راموس نے اسلحہ اور گولیوں کی تصاویر بھیجی تھیں: سابق کلاس فیلو

خبر رساں اداروں کی جانب سے شناخت کردہ راموس کے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ پر موجود اسلحے کی تصویروں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ نیم خودکار ہتھیار ہے۔

ان کے ایک سابق کلاس فیلو نے بتایا کہ راموس نے حملے سے چند دن پہلے انہیں اسلحے اور گولیوں سے بھرے بیگ کی تصاویر بھیجی تھیں۔

سابق ہم جماعت نے کہا: ’وہ مجھے ادھر ادھر کے میسج کرتا رہا اور چار دن پہلے انہوں نے مجھے اے آر (گن) کی ایک تصویر بھیجی، جسے وہ استعمال کر رہا تھا اور 5.56 راؤنڈز سے بھرا ایک بیگ۔ شاید یہ سات میگزین جتنی گولیاں تھیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میرا ردعمل کچھ اس طرح تھا کہ بھائی یہ آپ کے پاس کیوں ہے؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا: ’اس کی فکر نہ کریں۔‘ انہوں نے مجھے بعد میں ٹیکسٹ کیا کہ ’میں اب بہت مختلف نظر آ رہا ہوں۔ تم مجھے نہیں پہچان پاؤ گے۔‘

گورنر ایبٹ کے مطابق ٹیکسس کے عہدیداروں نے بدھ کو بتایا کہ راموس کا کوئی مجرمانہ یا ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور یہ کہ حملے سے ٹھیک پہلے بھیجے گئے پیغامات کے علاوہ ان کے جرم کے حوالے سے کوئی واضح وارننگ نہیں تھی۔

راموس کو تنگ (بُلی) کیا جاتا تھا: دوست

تاہم جو لوگ راموس کو جانتے تھے وہ انہیں شدید پریشانی میں مبتلا شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دوستوں اور رشتہ داروں نے کہا ہے کہ راموس کو سکول میں بُلی (Bully) یعنی تنگ کیا جاتا تھا۔ وہ اس غصے میں اپنا چہرہ نوچ لیتے، مختلف لوگوں پر بی بی گن (کھلونا بندوق) سے فائر کرتے اور مہلک حملے سے قبل کئی سالوں تک کاروں پر انڈے پھینکتے رہے۔

خاندان اور دوستوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی گھریلو زندگی مشکلات کا شکار تھی۔ بچپن میں بولنے میں ہکلانے پر انہیں تنگ کیا جاتا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں اور کئی سالوں کے دوران اپنے دوستوں، اجنبیوں اور اپنی والدہ تک کے ساتھ پرتشدد برتاؤ کا مظاہرہ کیا تھا۔

18 سالہ سینٹوس ویلڈیز جونیئر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہ راموس کو سکول کے ابتدائی دنوں سے جانتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس وقت تک دوست رہے جب تک کہ راموس کا رویہ انتہائی برا نہیں ہو گیا۔

راموس کے تبدیل ہونے سے پہلے وہ ایک ساتھ ویڈیو گیمز کھیلتے تھے۔

ویلڈیز نے ایک واقعے کے بارے میں بتایا جب راموس ایک پارک میں پہنچے جہاں وہ باسکٹ بال کھیلتے تھے، اس وقت ان کے پورے چہرے پر کٹ لگے تھے، جس کے بارے میں راموس نے بتایا کہ انہیں بلی نے نوچ لیا ہے۔

ویلڈیز نے کہا: ’پھر راموس نے مجھے سچ بتایا کہ انہوں نے چھری کے کئی وار کرکے اپنا چہرہ کاٹ لیا۔ میں نے پوچھا کیا تم پاگل ہو؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟‘ راموس نے کہا کہ ’اس نے یہ تفریح کے لیے کیا تھا۔‘

’ہکلانے پر تنگ کیا جاتا تھا‘

دوستوں اور خاندان کے افراد نے بتایا کہ راموس کو مڈل سکول اور جونیئر ہائی میں ان کے ہکلانے اور تقریر میں الفاظ کی ادائیگی میں درستی نہ ہونے کی وجہ سے تنگ کیا جاتا تھا۔ آٹھویں جماعت میں خود کو راموس کا بہترین دوست سمجھتے والے سٹیفن گارسیا نے کہا کہ انہیں سکول میں تلخ تجربے کا سامنا تھا۔

گارسیا نے ’دی پوسٹ‘ کو بتایا: ’انہیں بہت زیادہ تنگ کیا جاتا۔ جیسے بہت سے لوگ انہیں ہراساں کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر، گیمنگ پر، ہر چیز پر۔ وہ سب سے اچھا لڑکا تھا، سب سے زیادہ شرمیلا بچہ۔ انہیں صرف اپنے خول سے باہر نکلنے کی ضرورت تھی۔ ‘

گارسیا نے بتایا کہ راموس نے ایک بار بلیک آئی لائنر کے ساتھ اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس پر بڑی تعداد میں تبصرے کیے گئے تھے، جن میں ہم جنس پرستوں کے لیے توہین آمیز زبان بھی شامل تھی۔

گارسیا نے کہا کہ انہوں نے راموس کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اپنی والدہ کے ٹرانسفر کی وجہ سے ٹیکسس کے کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو گئے تو راموس ایک مختلف انسان بنتے چلے گئے۔

گارسیا نے کہا: ’وہ بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا۔‘

جب گارسیا وہاں سے منتقل ہوئے تو راموس نے بھی سکول چھوڑ دیا۔ وہ ہر وقت سیاہ لباس پہننے لگے۔ انہوں نے اپنے بالوں کو بڑھایا اور فوجی جوتے استعمال کرنے لگے۔

راموس کے کئی تعلیمی سال چھوٹ گئے

راموس کے کلاس فیلوز نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کئی تعلیمی سال ضائع کر دیے اور اس لیے وہ دوسرے کلاس فیلوز کے ساتھ گریجویشن نہیں کر پائے۔

راموس کی کزن میا نے اپنا آخری نام استعمال نہ کرنے کی شرط پر ’دی پوسٹ‘کو بتایا کہ ’ہکلانے کے باعث انہیں بہت زیادہ تنگ کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔‘

میا نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ وہ سکول میں خود کو زیادہ آرام دہ محسوس نہیں کرتے تھے۔‘

ویلڈیز نے کہا کہ راموس نے تقریباً ایک سال قبل سوشل میڈیا پر خودکار رائفلوں کی تصاویر پوسٹ کی تھیں جو شاید ان کی وش لسٹ میں شامل رہی تھیں۔ انہوں نے چار دن پہلے دو رائفلوں کی تصاویر پوسٹ کیں، جنہیں راموس نے ’میری بندوق کی تصویر‘ کے طور پر بیان کیا۔

والدہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات

ہائی سکول میں راموس کی کلاس فیلو نادیہ رئیز نے ’دی پوسٹ‘ کو بتایا کہ راموس نے دو ماہ قبل ایک انسٹاگرام سٹوری پوسٹ کی تھی جس میں انہیں اپنی والدہ پر چیختے ہوئے دکھایا گیا تھا، جو ان کے بقول انہیں گھر چھوڑنے کا کہہ رہی تھیں۔

نادیہ رئیز نے کہا: ’انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر ویڈیوز پوسٹ کیں جس میں پولیس اہلکار موجود تھے اور وہ اپنی ماں کو گالی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انہیں گھر سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔ وہ چیخ رہے تھے اور اپنی والدہ سے واقعی جارحانہ انداز میں بات کر رہے تھے۔‘

ان کے پڑوسی 41 سالہ روبن فلورس نے اخبار کو بتایا کہ راموس کے اپنی والدہ کے ساتھ بہت مشکل تعلقات تھے۔

فلورس نے کہا کہ ان کے درمیان مسائل برسوں کے دوران مزید گہرے ہوگئے کیونکہ پڑوسیوں نے ماں اور بیٹے کے درمیان لڑائیاں اور پولیس کو ان کے دروازے پر دیکھا تھا۔

فلورس نے کہا کہ راموس چند ماہ قبل اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر اپنی نانی کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ وہ گھر بھی ان کی نانی کی ملکیت تھا جہاں راموس کی والدہ رہتی تھیں۔

راموس کئی لوگوں کے ساتھ ہاتھا پائی میں ملوث رہے

نادیہ رئیز نے کہا کہ انہیں مڈل سکول اور جونیئر ہائی سکول میں راموس کی لگ بھگ پانچ لوگوں سے ہاتھا پائی یاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ دیر تک دوستی قائم نہیں رہتی تھی۔

انہوں نے ایک بار ایک دوست سے کہا کہ وہ میرینز میں اس لیے شامل ہونا چاہتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ لوگوں کو ہلاک کرنے کے قابل بن سکتے تھے، جس پر اس لڑکے نے ان سے دوستی ختم کر دی۔

نادیہ رئیز نے دی پوسٹ کو بتایا: ’وہ چیزوں کو بہت آگے لے جاتے تھے۔ کچھ ایسا کہہ جاتے جو نہیں کہنا چاہیے اور پھر وہ اس کے بارے میں دفاعی انداز اختیار کر لیتے۔‘

ویلڈیز نے بتایا کہ راموس کے ساتھ ان کی آخری بات چیت شوٹنگ سے تقریباً دو گھنٹے قبل ہوئی تھی۔ انہوں نے انسٹاگرام سٹوریز کے ذریعے میسج کیا، جب ویلڈیز نے ایک میم شیئر کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’سکول ابھی تک کیوں کھلا ہے۔‘

ایک سکرین شاٹ میں راموس کا جواب ’فیکٹس‘ اور ’یہ اچھی بات ہے، ٹھیک ہے؟‘ تحریر ہے۔

ویلڈیز نے اس کا جواب لکھا: ’میں سکول نہیں گیا ہوں،‘ لیکن انہوں نے اخبار کو بتایا کہ راموس نے اس پیغام کو کبھی نہیں دیکھا۔

گارسیا نے اخبار کو اس لمحے کے بارے میں بتایا جب انہیں شوٹنگ کے بارے میں پتہ چلا: ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں کسی سے اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں کلاس سے باہر نکلا۔ میں واقعی پریشان تھا۔ میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ مجھے کبھی توقع نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ انہیں ذہنی مدد کی ضرورت تھی اور اپنے خاندان کے ساتھ مزید قربت اور محبت کی بھی۔‘

راموس کو بارڈر پیٹرول ٹیکٹیکل یونٹ کے اہلکار نے ہلاک کیا

حکام کا کہنا ہے کہ بندوق بردار کو ایلیٹ بارڈر پیٹرول ٹیکٹیکل ٹیم کے ارکان نے ہلاک کیا۔

راموس نے خود کو یووالڈی کے روب ایلیمنٹری سکول کے دو کمروں کے کلاس روم میں بند کر لیا تھا، جہاں انہوں نے متاثرین کو قتل کیا اور پھر کھڑکیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فائرنگ کی۔

قانون نافذ کرنے والے ذرائع نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ بارڈر پیٹرول کی بورٹیک ٹیم کے ارکان نے سان انتونیو سے 80 میل مغرب میں واقع قصبے میں واقع سکول میں جوابی کارروائی کی لیکن سٹیل کے دروازے اور عمارت کے کنکریٹ کے بلاک کی وجہ سے وہ کلاس روم میں داخل نہیں ہوسکے۔

ٹیم نے حملہ آور پر گولی چلائی جو دروازے اور کلاس روم کی دیواروں سے ان پر گولیاں برسا رہا تھا۔

بورٹیک ٹیم سکول کے پرنسپل سے ماسٹر کی (متبادل چابی) ملنے کے بعد کلاس روم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی۔

ٹیم کے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بورٹیک کے ایک ایجنٹ نے اپنی شیلڈ سے گولیاں کو روکا، دوسرا ایجنٹ حملہ آور کی گولی سے زخمی ہوگیا جبکہ تیسرے ایجنٹ نے راموس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

حکام نے اخبار کو بتایا کہ کلاس رومز کے اندر ایجنٹوں کو متعدد مردہ بچے ڈھیر کی شکل میں ملے۔

اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ راموس نے 17 مئی اور 20 مئی کو قانونی طور پر دو رائفلز خریدی۔ ایک رائفل ان کے ٹرک میں رہ گئی تھی جب کہ ’ڈینیل ڈیفنس‘ کمپنی کی دوسری رائفل سکول سے ملی۔

راموس نے 18 مئی کو 5.56 بور کے 375 راؤنڈ خریدے۔

’فیس بک پر حملے کا بتا دیا تھا‘

گورنر گریگ ایبٹ نے انکشاف کیا کہ راموس نے اپنے مہلک حملے سے 15 منٹ پہلے فیس بک پر پوسٹ میں لکھا کہ وہ ’ایک پرائمری سکول میں فائرنگ کرنے والے ہیں۔‘

حکام کے مطابق حملے سے پہلے ان کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ یا دماغی صحت کی معلومات نہیں تھیں۔

گورنر ایبٹ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ راموس نے حملے سے پہلے براہ راست 30 منٹ میں تین بار سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کیا تھا۔

پہلی پوسٹ میں انہوں نے لکھا: ’میں اپنی نانی کو گولی مارنے جا رہا ہوں۔‘ دوسرا پیغام تھا: ’میں نے اپنی نانی کو گولی مار دی ہے۔‘ اور تیسرا، جو حملہ شروع ہونے سے ٹھیک پہلے کیا گیا: ’میں ایک پرائمری سکول میں فائرنگ کرنے جا رہا ہوں۔‘

عہدیداروں نے نشاندہی کی کہ راموس نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ 16 ہزار آبادی والے شہر میں کون سے ایلیمنٹری سکول پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ شہر سان انتونیو سے 80 میل مغرب میں واقع ہے۔

دوسری جانب فیس بک کی ملکیتی کمپنی میٹا کے ترجمان اینڈی سٹون نے گورنر کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’گورنر ایبٹ نے جن پیغامات کو بیان کیا وہ ون ٹو ون ذاتی ٹیکسٹ پیغامات تھے جو خوفناک سانحے کے رونما ہونے کے بعد سامنے آئے تھے۔ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ان کی جاری تحقیقات میں قریبی تعاون کر رہے ہیں۔‘

حملے سے پہلے ٹیکسٹ کیا تھا: جرمن لڑکی

جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک 15 سالہ لڑکی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ راموس نے شوٹنگ سے ٹھیک پہلے انہیں ٹیکسٹ میسج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’میں ابھی ایک پرائمری سکول میں فائرنگ کے لیے جا رہا ہوں۔‘

سیس نامی لڑکی نے اخبار کو بتایا کہ انہیں صبح 11 بجکر 21 منٹ پر یہ پیغام موصول ہونے کے فوری بعد ایک پیغام موصول ہوا جس میں راموس نے لکھا تھا: ’میں نے ابھی اپنی نانی کے سر میں گولی ماری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ راموس سے کئی ہفتے قبل لائیو سٹریمنگ ایپ یوبو پر ملی تھیں اور انہوں نے رواں ماہ کے آغاز پر انہیں بندوق کی دکان سے ویڈیو میسج کیا تھا جہاں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ایک AR-15 رائفل خرید رہے ہیں۔

سیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی کو خبردار نہیں کیا لیکن جب قتل عام کی خبر بریک ہوئی تو امریکہ میں ایک دوست نے ان کی طرف سے حکام سے رابطہ کیا۔

راموس کے نانا کا بیان

حملہ آور کے نانا کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ راموس کے گھر میں اتنی طاقتور رائفلیں موجود ہیں۔

رولینڈو رئیز نے اے بی سی نیوز کو بتایا: ’میں نہیں جانتا تھا کہ ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں حکام کو اس کی اطلاع دیتا۔‘

راموس نے خاندان کی کار چوری کرنے اور روب ایلیمنٹری سکول جانے سے پہلے اپنی 66 سالہ نانی کے سر میں گولی مار دی تھی۔

ان کے بقول: ’میں یہ ابھی تک قبول نہیں کر پایا۔‘

راموس کی نانی، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 66 سالہ سیلیا مارٹینیز گونزالیز ہیں، کی حالت تشویش ناک ہے لیکن وہ حیات ہیں۔

خاندان کے مطابق راموس اپنی والدہ کے ساتھ علیحدگی کے بعد اپنے نانا نانی کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں اکیلے گزارتے اور ویڈیو گیمز کھیلتے تھے۔

انہوں نے کہا: ’وہ بہت خاموش طبعیت تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔‘

نانا نے کہا کہ وہ کبھی کبھی راموس کو اپنے ساتھ کام کے لیے لے جاتے تھے کیونکہ وہ اکثر سکول سے غیر حاضر رہتے تھے اور وہ گریجویشن کے لیے تیار نہیں تھے۔‘

میرا بیٹا تشدد پسند نہیں تھا: والدہ

حملہ آور راموس کی والدہ نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیٹا ’تشدد پسند نہیں تھا‘۔

ایڈریانا رئیز نے ڈیلی میل کو بتایا کہ وہ اس واقعے پر ’حیران‘ تھیں کہ ان کے 18 سالہ بیٹے نے یووالڈی کے روب ایلیمنٹری سکول پر دھاوا بول کر 21 افراد کا قتل عام کیا۔

اس وقت 39 سالہ ایڈریانا اپنی والدہ سیلیا مارٹینیز گونزالیز کے ہسپتال کے کمرے میں موجود تھیں، جنہیں ان کے پوتے نے امریکی تاریخ کی سب سے مہلک ترین سکول فائرنگ سے پہلے چہرے پر گولی مار دی تھی۔

انہوں نے سان انتونیو ہسپتال سے ڈیلی میل کو بتایا: ’میرا بیٹا پُرتشدد شخص نہیں تھا۔ میں حیران ہوں کہ اس نے یہ کیا کیا۔‘

’میں متاثرین کے خاندانوں کے لیے دعاگو ہوں۔ میں ان تمام معصوم بچوں کے لیے دعاگو ہوں۔ ہاں میں دعاگو ہوں۔ ان (بچوں) کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔‘

ایڈریانا رئیز کہتی ہیں کہ انہوں نے آخری بار اپنے بیٹے کو گذشتہ پیر کو ان کی سالگرہ کے موقع پر دیکھا تھا جہاں انہوں نے انہیں ایک سنوپی ٹوائے اور ایک کارڈ تحفے میں دیا تھا۔

انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کے درمیان خراب تعلقات تھے حالانکہ وہ ان کو چھوڑ کر اپنی نانی کے پاس رہنے چلے گئے تھے۔

انہوں نے اس بارے میں بتایا: ’میرے راموس کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ تنہا پسند تھے۔ ان کے زیادہ دوست نہیں تھے۔‘

راموس نے نانی کو مارا

اطلاعات کے مطابق راموس اور ان کی نانی کے درمیان یووالڈی ہائی سکول سے گریجویشن کے بارے میں لڑائی ہوئی جس کے بعد راموس نے اپنی نانی کو چہرے میں گولی مار دی۔

میڈیا ادارے ’نیوزی‘ سے منسلک جون مون کی رپورٹنگ کے مطابق، ایڈورڈو ٹریڈیڈ نامی ہمسائے نے بتایا کہ راموس اس بات پر غصے میں تھے کہ وہ ہائی سکول سے گریجویٹ نہیں ہو رہے اور شوٹنگ کی صبح ان کی اپنی نانی سے تلخ کلامی ہوئی۔

بدھ کی صبح تک ان کی نانی کی حالت نازک تھی اور وہ سان انتونیو میں ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔

راموس یووالڈی ہائی سکول میں زیرتعلیم تھے مگر وہ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ اس سال گریجویٹ ہونے کی راہ پر نہیں تھے۔

شوٹر سکول میں رہا

حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل شوٹر ایک گھنٹے تک سکول کے اندر رہا تھا۔

عینی شاہدین نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا تھا کہ انہوں نے حملے کے دوران پولیس افسران پر زور دیا تھا کہ وہ روب ایلیمنٹری سکول میں داخل ہوں۔

قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے فوری ایکشن نہیں لیا۔

پولیس نے دیر سے ایکشن لینے اور کسی بھی ’ہچکچاہٹ‘ کی تردید کی ہے۔

24 سالہ عینی شاہد ہوان کرانزا نے کہا کہ راموس نے اپنا ٹرک سکول کے باہر ایک کھائی میں کریش کیا تھا اور اپنی اے آر 15 سٹائل نیم خود کار رائفل سے ایک قریبی مردہ خانے کے باہر کھڑے دو لوگوں پر گولیاں چلائیں جو زخمی ہوئے بغیر وہاں سے بچ نکلے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون نے پاس کھڑے پولیس اہلکاروں سے چلا کر کہا: ’اندر جاؤ، اندر جاؤ‘، مگر وہ نہیں گئے۔

امریکی ایوان نمائندگان کے رکن ٹونی گوزالیز، جن کے حلقے میں یووالڈی آتا ہے، نے سی این این کو بتایا کہ طلبہ اور اساتذہ پر فائرنگ کے بعد راموس اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ایک گھنٹے تک سٹینڈ آف رہا۔

انہوں نے بتایا کہ 30 منٹ کے لیے اس کی کارروائی میں تعطل آیا جس میں پولیس اہلکاروں کو لگا کہ راموس نے خود کو رکاوٹوں کے پیچھے چھپا لیا ہے۔

گونزالیز نے کہا: ’پھر فائرنگ رک گئی اور وہ اندر چھپ گیا۔ تب کچھ دیر کے لیے اس کی کارروائی میں وقفہ آیا۔ میری سمجھ کے مطابق یہ سب ایک گھنٹے تک چلا، مگر یہاں 30 منٹ کا تعطل تھا۔ انہیں لگا کہ انہوں نے اسے اندر گھیر لیا ہے اور باقی طلبہ اب جا رہے ہیں۔‘

ڈپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے کرسٹوفر اولیوریزن نے بتایا کہ راموس نے ’اپنے آپ کو ایک کلاس روم میں تالا لگا کر بند کر لیا اور اندر موجود طلبہ اور اساتذہ پر فائرنگ کی۔‘

انہوں نے کہا: ’اس سے شوٹر کی مکمل برائی ظاہر ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ راموس کا خود کو اندر بند کر لینا پولیس اہلکاروں کے لیے نقصان دہ ہوا اور انہوں نے اعتراف کیا کہ موقعے پر موجود اہلکار ناکافی تھے۔   

انہوں نے سی این این کو بتایا: ’اس وقت عملہ ناکافی تھا اور ان کا مرکزی مقصد مزید جانوں کے نقصان کو روکنا تھا۔ اس سب کے دوران انہوں نے سکول کی کھڑکیاں توڑنا شروع کیں اور بچوں اور اساتذہ کو وہاں سے نکالنا شروع کیا۔‘

یو ایس بارڈر پیٹرول کے سربراہ راول آورٹز نے کہا کہ ادارے کے ایجنٹ تب جائے وقوعہ پر پہنچے جب پولیس اور حملہ آور کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پیٹرول کی ٹیکٹیکل ٹیم اور مقامی افسران کی مشترکہ ٹیمیں شوٹر کے پیچھے گئیں۔  

ان کا کہنا تھا: ’وہ ہچکچائے نہیں۔ انہوں نے منصوبہ بنایا۔ وہ کلاس روم میں داخل ہوئے اور انہوں نے جتنی جلدی ہو سکتا تھا صورت حال کو قابو میں کیا۔‘

دوسری جانب تحقیقات سے واقف ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار نے بتایا کہ بارڈر پیٹرول ایجنٹس کو کلاس روم کا دروازہ کھولنے میں مشکل ہوئی اور سکول کے عملے کے ایک رکن کو اپنی چابی سے دروازہ کھول کر دینا پڑا۔

یہ رپورٹ کیا گیا ہے کہ راموس کو آخر کار گولی مارنے والے ایک بارڈر پیٹرول ایجنٹ ہی تھے۔

پولیس نے تسلیم کیا کہ اس کے افسران کلاس پر ہلہ بولنے کی بجائے مزید نفری کا انتظار کرتے رہے

ریاست ٹیکسس ایک چوٹی کے پولیس افسر نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ افسروں کو باہر کھڑے ہو کر مزید نفری اور ہتھیاروں اور ساز و سامان کا انتظار کیے بغیر کلاس کے کمرے پر ہلہ بول دینا چاہیے تھا۔

ٹیکسس کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے ڈائریکٹر سٹیون سی میگرا نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’ظاہر ہے یہی درست نہیں فیصلہ تھا۔ یہ بالکل غلط فیصلہ تھا۔ اس کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ پولیس نے غلطی سے سمجھ لیا تھا کہ شوٹنگ ختم ہو گئی ہے اور وہ ’ملزم جس نے خود کو بند لیا ہے‘ (barricaded subject) کی صورتِ حال کی طرف منتقل ہو گئے تھے، حالانکہ طلبہ اس دوران ہنگامی سروس 911 پر کالیں کرتے رہے۔

پولیس نے کہا کہ شروع میں کمرے کے بارے راہداری میں 19 پولیس اہلکار انتظار کرتے رہے، لیکن ان کے کمانڈر نے طے کر لیا تھا کہ ’بچوں کو مزید خطرہ نہیں ہے۔‘

2012 کے بعد سب سے مہلک سکول حملہ

19  طالب علموں اور دو اساتذہ کی ہلاکت 2012 میں کنیکٹیکٹ ریاست کے نیو ٹاؤن کے سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے بعد کسی بھی ایلیمنٹری سکول پر سب سے مہلک حملہ ہے۔ نیو ٹاؤن حملے میں 20 طلبہ اور چھ اساتذہ کی جانیں گئی تھیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ’اس درد کو عملی اقدام میں بدل دیا جائے‘ اور فائرنگ سے قتل عام کے بعد گن قوانین کو تبدیل کیا جائے۔

انہوں نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ’ہم اس قتل عام کے ساتھ رہنے کو کیوں تیار ہیں؟ کیا ہم میں اس سے نمٹنے اور گن لابی کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہے؟‘

ٹیکسس کے رہنماؤں کے ساتھ بدھ کی نیوز کانفرنس میں اس وقت ایک تنازع کھڑا ہو گیا جب گورنر کے امیدوار بیٹو او رورک نے آڈیٹوریم سے باہر جانے سے پہلے چیخ کر کہا: ’اگلی شوٹنگ کو روکنے کا وقت ابھی ہے اور آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔‘

گورنر نے جواب میں کہا کہ ’ہم اس وقت بات کر رہے ہیں جب متاثرہ خاندانوں کے لوگ یہاں رو رہے ہیں۔ یہاں متاثرہ خاندانوں کے ایسے لوگ ہیں جن کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں کہ کوئی چیخنے والا یہاں آ کر ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ٹیکسس کے ہر شہری، ہر امریکی کی ایک ذمہ داری ہے جہاں ہمیں اپنی اور اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘


اس رپورٹ میں دی انڈپینڈنٹ کے بیون ہرلی، سراوستی داس گپتا، گوسٹاو کلندر، ایلکس وڈورڈ، جوش مارکس، گریم میسی، ایب عشر اور شویتا شرما کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ