بلوچستان: گھنگروؤں کی جھنکار بکھیرتے کتھک ڈانسر

بلوچستان کے شورش زدہ علاقے آواران سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ احمد ابن سکینہ کو رقاص ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا سامنا رہا ہے۔

احمد اب تک ملک کے مختلف شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں (فوٹو: ویڈیو سکرین گریب)

احمد ابن سکینہ کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے ہے، جو ایک شورش زدہ خطہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ پتھریلے پہاڑوں پر گھنگروؤں کی جھنکار بکھیرتے ہیں۔

احمد بچپن ہی سے ریڈیو پر کلاسیکی موسیقی سنا کرتے تھے جس سے متاثر ہوکر انہوں نے ڈانسر بننے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے آٹھویں جماعت سے رقص کا آغاز کیا اور اب تک وہ ملک کے مختلف شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں۔

32 سالہ احمد کو قدامت پسند قبائلی معاشرے میں رقاص ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا سامنا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’میں لوگوں کو ان کی سوچ کی وجہ سے کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میرا خیال ہے کہ میں جو سوچتا ہوں وہ میری سوچ ہے۔ لوگ جو سوچتے ہیں وہ ان کی سوچ ہے۔ نہ میں لوگوں کی سوچ پر پابندی لگا سکتا ہوں اور نہ ہی میں اس سوچ کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ میں جو کر رہا ہوں وہ مجھے صحیح لگتا ہے۔‘

احمد نے بتایا کہ ’جہاں مجھ پر تنقید کی جاتی ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، وہیں لوگوں نے مجھے پیار بھی بہت دیا ہے۔‘

اپنے فن سے متعلق ان کا کہنا تھا: ’اس ڈانس کی بدولت مجھے ایسے بہت سارے لوگ ملے جو مجھ سے اپنی فیملی کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔‘

احمد کے نام سے جڑا سکینہ ان کی والدہ کا نام ہے جو احمد کی والدہ کے ساتھ محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدہ کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑنا یہاں ایک غیر معمولی بات سمجھتی جاتی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں لوگ والدہ کا نام تک بتانے سے کتراتے ہیں اور والدہ کا نام بتانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔‘

احمد نے برملا بتایا: ’میری ساری زندگی والدہ کے ساتھ گزری ہے۔ مجھے والدہ کے ساتھ محبت ہے، اسی لیے میں نے اپنے نام کے ساتھ والدہ کا نام جوڑا۔‘

 کرونا (کوورنا) وبا کے دنوں میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی احمد کی مالی حالت اچھی نہیں۔ وہ شکوہ کرتے ہیں کہ متعدد بار ٹیسٹ اور انٹرویوز دینے کے باوجود وہ نوکری حاصل نہیں کر پائے۔ 

وہ اپنے فن پارے بیچ کر یا پھر پرفارم کرکے بس اتنا ہی کما لیتے ہیں کہ اپنا گزر بسر خود کر سکیں۔

احمد کو اپنے گھر والوں کی جانب سے ہمیشہ ان سوالوں کا سامنا رہتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بھی کام کیوں نہیں کرتے؟ آرٹ کے شعبے کا انتخاب کیوں کیا جو اب نوکری نہیں ملتی۔

وہ بتاتے ہیں: ’میرے ابو جب بھی فون کرتے ہیں تو نوکری کا پوچھتے ہیں۔‘ 

ان تمام مشکلات کے باوجود اور بالخصوص خود پر تنقید کرنے والے لوگوں کو وہ پیار بانٹنے اور پیار کرنے کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن