سیاست کو غریب کا خون کیوں چاہیے؟

کارکن کے ساتھ قیادت کا رشتہ کیا ہے؟ خیر خواہی کا یا استحصال کا؟ سیاسی قائدین جو چیز اپنی اولاد کے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے کیوں پسند کرتے ہیں؟

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی20 مئی 2022 کو ملتان میں ایک جلسے کے دوران پارٹی رہنما کی تقریر سن رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

عمران خان چھ دن کی مہلت دے کر جہاں سے آئے تھے اسی عافیت کدے میں لوٹ گئے۔

اپنے پیچھے مگر وہ یہ دھمکی چھوڑ گئے ہیں کہ اس عرصے میں انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو وہ لانگ مارچ کے ساتھ دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔ سوال یہ ہے اگلی دفعہ اگر واقعی وہ لانگ مارچ کرتے ہیں تو ان کے ہمراہ ان کے صاحبزادے بھی ہوں گے یا اس بار بھی جان کی بازی لگانے کے لیے غریب اور سادہ لوح کارکنان کا استعمال کیا جائے گا؟

کارکن کے ساتھ قیادت کا رشتہ کیا ہے؟ خیر خواہی کا یا استحصال کا؟ سیاسی قائدین جو چیز اپنی اولاد کے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے کیوں پسند کرتے ہیں؟ عمران خان نے لانگ مارچ کیا، لاشے گروائے اور صبح کے سناٹے میں پراسرار طور پر لانگ مارچ ختم کر کے واپس خیبر پختنخوا کی عافیتوں میں لوٹ گئے۔ یہ خونِ خاک نشیناں تو تھا لیکن کیا کوئی یہ بتائے گا کہ یہ کس اعلیٰ اصول کی خاطر رزقِ خاک ہوا؟ 

کبھی آپ نے سوچا کہ بچی ابھی پہلی جماعت میں پڑھتی ہو اور اس کا باپ لانگ مارچ کی وحشتوں میں زندگی سے محروم ہو جائے تو اس ننھے وجود پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا آپ ایک لمحے کو اس بچی کی ماں کے دکھ کی گہرائی کا اندازہ کر سکتے ہیں جس کی ویران آنکھوں میں اترے آنسوؤں کو یہ بھی خبر نہ ہو کہ انہیں بیوگی کے دکھ میں بہنا ہے یا لاچار ممتا کے؟

کم سنی کا دکھ بچوں کو کتنا سیانا کر دیتا ہے؟ بچی اپنی ہم جماعتوں کو بتا رہی ہے کہ ماما مجھ سے یہ بات چھپا رہی ہیں لیکن مجھے معلوم ہے میرے بابا چلے گئے ہیں۔ ننھے ننھے ارمان پامال کر کے ان پر اقتدار کی راہ گزر بنانے والے کیا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ ان جھل مل ستاروں کو یتیم خانے میں کیوں گاڑا گیا؟

پولیس کا غیر انسانی رویہ بھی ایک المیہ ہے لیکن محض اس پر سارا ملبہ ڈال دینا نہ صرف خلط مبحث ہے بلکہ عذر گناہ بھی ہے۔ شیخ رشید کے یہ رجز کسے بھولے ہیں کہ لانگ مارچ خونی ہو گا۔ یہ فیصلہ اب سماج کے شعور اجتماعی کو کرنا ہو گا کہ ’خونی مارچ‘ ان کا اندیشہ تھا یا مطلوب و مقصود۔ مماثلت یقیناً اتفاقی ہی ہو گی لیکن ہے غیر معمولی کہ شیخ رشید کے بچے ہی نہیں ہیں اور عمران خان کے بچے ملک میں نہیں ہیں۔ اب لانگ مارچ خونی ہو جائے یا سماج میں آگ لگ جائے کیا پرواہ ہے؟

تقریر کا ’اسلامی ٹچ‘ تو سب کو نظر آ گیا لیکن اس ساری مہم جوئی میں جو ’اسلامی ٹچ‘ دیا گیا اس پر کوئی غور نہیں کر رہا۔ فکری نا پختگی کے شکار سماج میں اس لانگ مارچ سے پہلے ایک پورا بیانیہ ترتیب دیا گیا۔ اب یہ محض ایک حکومت کو ہٹا کر انتخابات کے انعقاد کی سیاسی جدو جہد نہیں تھی، یہ ’جہاد‘ تھا۔ یہ اسلام اور پاکستان کی خاطر نکلنے کا دعوت نامہ تھا۔ یہ غداروں اور ملک دشمنوں سے نجات کی کوشش تھی۔

کشمکش اقتدار کی اس ساری واردات کو اتنا مقدس بنا کر پیش کیا گیا کہ جناب عمران خان نے عمرے پر جانے والوں کی بھی سرزنش فرما دی کہ یہ وقت ملک میں رہ کر مقدس جدوجہد کا ہے، عمرے کرنے کا نہیں ہے۔

سوال بےشک ان لوگوں سے بھی بنتا ہے کہ گھر میں معصوم بچے ہیں تو خود کو اس بےرحم سیاست کا ایندھن بنانے نکلے ہی کیوں؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ یہاں سیاست کے طالع آزماؤں کو لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی ایسی غیر معمولی آزادی کیوں میسر ہے؟ سیاست اپنے مروجہ سیاسی بیانیے میں عوامی مسائل اور زمینی حقائق پر کیوں نہیں کی جاتی، اسے کفر اور اسلام کی کشمکش بنا کر سماج سے اس کی سادہ لوحی کا تاوان کیوں لیا جاتا ہے؟

ایسا ہی ایک لانگ مارچ  مرحوم قاضی حسین احمد نے محترمہ بےنظیر بھٹو کے خلاف کیا تھا اور اس میں بھی لاشے گرے تھے۔ یہ دونوں اب اللہ کے حضور پہنچ چکے لیکن اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ منتخب حکومت کے خلاف ایسا انتہائی قدم اٹھانا پڑ گیا۔

سیاسی اجتماعات، جلسے اور احتجاج ہوتے رہتے ہیں لیکن جب انہیں ’اسلامی ٹچ‘ دے کر معاملے کو کفر اور اسلام اور محب وطنوں اور غداروں کے درمیان آخری معرکہ بنا دیا جاتا ہے تو پھر پورا سماج میدان جنگ بن جاتا ہے۔

ہماری تاریخ کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ کہیں کوئی تزویراتی صف بندی ہو یا ہماری داخلی سیاست میں میدان لگے، ہم نے ہر معاملے کو ’اسلامی ٹچ‘ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں رہنمائی کے آداب ہی بدل گئے۔ 

رہنما اب وہ نہیں جس کے ہاں بصیرت اور خیر خواہی ہے،  رہنما وہ ہے جس کے پرچم تلے لاشوں کی تعداد زیادہ ہو۔ لہو کو یہاں رومانوی حیثیت دی گئی۔ البتہ اس سارے عمل میں یہ اہتمام ضرور کیا گیا کہ قیادت اور اس کے اہل خانہ اس ساری مہم جوئی سے محفوظ رہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ حصول اقتدار کی لڑائی کو ’اسلامی ٹچ‘ صرف عمران خان نے دیا ہو۔ بعض سیاسی جماعتیں تو اس باب میں ’جملہ حقوق محفوظ‘ کا دعویٰ کرتی ہیں اور اسی لیے عمران کے مقابل کھڑی ہیں۔ لیکن اس محاذ آرائی کو جہاں عمران خان نے پہنچا دیا ہے وہ پریشان کن ہے۔ یہ رویہ خود تحریک انصاف کے لیے کسی خیر کا باعث نہیں بن سکے گا۔

تاہم اگر عمران خان کو اصرار ہے کہ یہ سیاست نہیں جہاد ہے اور وہ حصول اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ملک کو حققیقی آزادی دلانے نکلے ہیں اور یہ جدوجہد اتنی مقدس ہے کہ عمرے پر جانے کی بجائے اس میں شامل ہونا چاہیے تو پھر انہیں اس جدوجہد میں اپنے فرزندان کرام کو بھی شمولیت کی سعادت کا موقع فراہم کرنا  چاہیے۔ وہ عاقل و بالغ ہیں، بھلے وہ پاکستانی نوجوانوں کی طرح جذباتی ہو کر نکلنے سے انکار کر دیں، لیکن ایک حریت پسند باپ کو اتنا تو کرنا چاہیے کہ جہاں لوگوں کو عمرے سے روک رہا ہے کہ یہ وقت ملک میں جدوجہد کرنے کا ہے وہیں اپنے بچوں سے بھی کہے کہ یہ تاریخ انسانی کی عظیم اور مقدس جدوجہد ہے اس میں آؤ اور اپنے والد کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ۔ 

سادہ لوح معاشرے میں اہل ہنر نے آج تک جتنے ’اسلامی ٹچ‘ دیے ہیں انہیں دیکھ کر حسن حمیدی یاد آتے ہیں:
وہ دور اب دُور تو نہیں ہے
کہ وقت جب منصفی کرے گا
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں 
تم بھی آؤ گے
ہم بھی آئیں گے


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ