صحافی یا سیاسی جماعتوں کے ترجمان؟

صحافت اور سیاست میں فرق قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ایک صحافی اور ایک سیاست دان میں فرق رکھنا لازمی ہے۔

 ٹاک شو دیکھتے ہی واضح ہو جاتا ہے پروگرام نہیں بلکہ کسی سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت کی مہم جاری ہے اس دوران سچ کہیں درمیان میں ہی دب کر رہ گیا ہے۔ (تصویر: پیکسلز)

ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں اعلیٰ صحافتی اقدار بری طرح پامال ہو رہی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں ملکی میڈیا بری طرح تقسیم ہو چکا ہے۔ میڈیا ہاوسز فریق بن کر اپنے اپنے مخالفین پر لفظی گولہ باری میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔
 ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت نایاب ہوچکی ہے۔ مخاطب ہونے والا صحافی اب کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی صحافی کہہ دے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا تو یہ بات ناقابلِ یقین سی لگتی ہے۔ کسی بھی  صحافی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھ کر با آسانی اس کی جانبداری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کر رہا ہے۔
سیاست دان اور صحافی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان اکثریت کی حمایت کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن ایک صحافی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اگر ایک سیاست دان یا ادارہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہا  ہو تو ایک غیر جانبدار صحافی کا کام ہے کہ خبر کی کھوج لگا کر حقیقیت عوام کے سامنے لائے۔ اندرونی خبروں کے حصول کے لیے ہر صحافی سیاست دانوں یا پھر مقتدر حلقوں کی قربت چاہتا ہے لیکن دوسری جانب عوام کے سامنے ایک صحافی کی غیر جانبداری ہی اس کا سب سے بڑا اور اصلی سرمایہ ہوتی ہے۔ 
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک حصہ عمران خان کے ساتھ اور دوسرا حصہ پی ڈی ایم یعنی حکومت کے ساتھ ہے۔ یہی حال صحافت میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ہر صحافی کسی نہ کسی جماعت کی کھل کر حمایت کرنے لگا ہے۔ 
 ٹاک شو دیکھتے ہی واضح ہو جاتا ہے پروگرام نہیں بلکہ کسی سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت کی مہم جاری ہے اس دوران سچ کہیں درمیان میں ہی دب کر رہ گیا ہے۔
 سوال یہ ہے کہ کیا ایک صحافی پیپلز پارٹی کا جیالا، پی ٹی آئی کا ٹائیگر ہونا چاہیے، کیا ایک صحافی یا تجزیہ کار کو تخت لاہور کا قصیدہ گو ہونا چاہیے یا پھر ایک صحافی کو ایک صحافی ہی رہنا چاہیے۔ صحافت اور سیاست میں فرق قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ایک صحافی اور ایک سیاست دان میں فرق رکھنا لازمی ہے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ اس وقت پاکستانی میڈیا سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی اور مخالف گروپوں میں منقسم ہے اور سیاسی منظرنامے پر کشیدگی کے اضافے کے ساتھ ہی اب عمران خان کا حامی میڈیا ان کا زیادہ حامی ہو گیا ہے اور ان کا مخاف میڈیا ان کا زیادہ مخالف ہو گیا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مین سٹریم میڈیا میں زیادہ تر ٹی وی چینل اور بڑے اخبارات مسلم لیگ ن اور موجودہ حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ اشتہارات کا حصول بھی ہو سکتا ہے۔ میڈیا کے چند ایک چینلز عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پرعمران خان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس کی ایک وجہ تحریک انصاف کی مضبوط سوشل میڈیا ٹیم ہے۔  
 اب تو پاکستان میں ناظرین نے اپنا پسندیدہ چینل بھی چن رکھا ہے۔ ہر ایک اس چینل کو دیکھتا ہے جہاں اسے من پسند خبریں دیکھنے کو مل سکیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک تو لوگوں کا میڈیا سے اعتماد اٹھ رہا ہے اور دوسری جانب فیک نیوز کی بھرمار دکھائی دیتی ہے حال ہی میں دیکھا گیا کہ دو بڑے نیوز چینلز اور بعض سینیئر صحافی فیک نیوز پھیلاتے رہے۔ اس تقسیم نے صحافیوں سے حقائق پرکھنے کی صلاحیت بھی چھین لی۔ 
ایک ہی واقعے کو دو مختف ٹی وی چینلز اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دیکھنے والا ایک کو سچا جبکہ دوسرے کو جھوٹا قرار دیتا ہے۔ میڈیا مالکان کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی معیاری صحافت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ دوسری طرف سچ بولنے اورخبروں کی صداقت پر اصرار کرنے والے صحافی اب تیزی سے تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پارٹیوں کے من پسند اور سرکاری و مالی مفادات حاصل کرنے والے صحافی سیاسی جماعتوں کو پسند آتے ہیں اور ان کی ڈیمانڈ اس لیے بڑھ رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی پروموشن کر سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ