شہباز شریف: کیا کھویا کیا پایا؟

وزیر اعظم کو دیکھتا ہوں تو وہ معصوم سا بچہ یاد آ جاتا ہے جسے میلے میں کھڑا کر دیا گیا، خالی جیب لیے اب وہ حیران کھڑا تھا، کیا خریدے کیا نہ خریدے۔

وزیراعظم شہباز شریف جمعہ 27 مئی 2022 کو قوم سے حطاب کر رہے ہیں (تصویر: پی ٹی وی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

شہباز شریف وزیر اعظم تو بن گئے، سوال مگر یہ ہے کہ اس کی قیمت انہوں نے کیا ادا کی اور اس منصب پر فائز ہونے سے ملک کو، مسلم لیگ ن کو اور خود ان کی ذات کو کیا حاصل ہوا؟

بطور وزیر اعلیٰ پنجاب وہ ایک اچھے منتظم تھے لیکن وزیر اعظم کے طور پر وہ غلطی ہائے مضامین کا ایک مجموعہ ثابت ہوئے۔ بظاہر یہ عجیب سا لگتا ہے کہ جس وزیر اعظم کو منصب سنبھالے ابھی چند ہفتے ہوئے ہوں اس کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا جائے لیکن جب وزارت عظمیٰ کی کل مدت ہی مبلغ چند ماہ ہو تو اس کو پرکھنے کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ ایسے میں کارکردگی تو دور کی بات ہے، باڈی لینگویج ہی ساری کہانی بتا دیتی ہے۔

وزیر اعظم کو دیکھتا ہوں تو وہ معصوم سا بچہ یاد آ جاتا ہے جسے میلے میں کھڑا کر دیا گیا، خالی جیب لیے اب وہ حیران کھڑا تھا، کیا خریدے کیا نہ خریدے۔

 عمران خان کی پالیسیاں غلط تھیں اور وہ آئی ایم ایف سے تباہ کن معاہدے کر چکے تھے تو ا س کے نتائج انہی کو بھگتنے دیے جاتے۔ پھر عمران جانتے یا ان کے مداح اور سرپرست۔ شہباز شریف کو کیا پڑی کہ عمران خان کی غلط پالیسیوں کا بوجھ اٹھانے آ گئے؟ سمجھ سے باہر ہے کہ اس’مال بردار سیاست‘ کے پیچھے کون سی منطق تھی؟ کیا عمران خان کے فیض یاب ہونے کے خوف نے یہ فیصلہ کروایا؟ اصولی سیاست جس ’بیانیے‘ کو رجز بنا کر پھرتی رہی کیا وہ محض ’بیعانیہ‘ ہی تھا؟

مسلم لیگ ن نے اگر اقتدار سنبھالا ہی تھا تو لازم تھا کہ کچھ بہتری کر کے دکھاتی۔ اگر بہتری لانا ممکن نہیں تھا تو اقتدار میں آنے کی اتنی بے تابی کیوں تھی؟  کیا پی ڈی ایم صرف عمران کے آئی ایم ایف سے کئے گئے ’تباہ کن معاہدے‘ پر عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت میں آئی ہے؟ کیا یہ ملامتی سیاست صرف اس لیے کی گئی کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے غلط معاہدوں پر عمل کر کے عمران خان اپنی شہرت اور مقبولیت خراب نہ کر بیٹھیں اس لیے یہ کام ان کی جگہ ہم آ کر کر دیتے ہیں؟ قائد حزب اختلاف تھے تو شہباز شریف صاحب کو اراکین پارلیمان راہداریوں میں ’وفاقی وزیر برائے اپوزیشن‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس قربانی کے بعد کیا انہیں عمران لورز کلب کا چیئرمین کہہ کر پکارا جائے؟

اقتدار لے ہی لیا تھا اور معلوم تھا کہ تلخ اور مشکل فیصلے کرنے ہیں تو ایک ماہ کیوں ضائع کیا؟ گومگو کی کیفیت میں رہنا اور ملک میں بروقت فیصلوں کی بجائے نواز شریف صاحب کے پاس لندن جا کر مشاورت کرتے رہنا، اس نے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ یہ مشاورت اگر ضروری تھی تو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہونی چاہیے تھی۔ اقتدار کی نیام دو تلواروں کی متحمل ہو سکتی ہے نہ اقتدار اس غیر یقینی کیفیت کا نام ہے جس میں فیصلہ سازی کی قوت برفاب ہو جائے۔

قوم سے بطور وزیر اعظم پہلا خطاب فرمانے آئے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ آدھی رات کو یہ خطاب نہیں تھا، یہ اعلان تھا کہ ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘۔ تاخیر ہو گئی تھی تو یہ بے روح سی رسم اگلے روز کسی معقول وقت پر بھی ادا کی جا سکتی تھی۔ ایسی کیا قیامت آ گئی تھی کہ آدھا ملک سو رہا تھا اور وزیر اعظم خطاب فرما رہے تھے؟

گومگو کی اسی کیفیت کا عمران خان نے فائدہ اٹھایا اور اپنی حکمت عملی سے عملاً پی ڈی ایم کی حکومت کو ناک آؤٹ کر دیا۔ معتبر ذرائع روایت کرتے ہیں کہ اقتدار سے الگ ہونے پر مشاورت شروع ہو گئی  تھی اور ایک مرحلے پر طے ہو گیا  تھا کہ مئی کے آخر تک حکومت چھوڑ دی جائے کیونکہ ن لیگ کی قیادت کا خیال تھا کہ مشکل فیصلے اور مہنگائی کر کے ہم عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے بعد چند ماہ کا یہ اقتدار بھی رہے یا نہ رہے۔

عمران خان کو خبر ہوئی تو انہوں نے فورا لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد پہنچے اور لانگ مارچ ختم بھی کر دیا۔ لوگ عمران کا مذاق اڑاتے رہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں وہ کیسی گگلی کھیل گئے۔عمران تو جا چکے تھے لیکن حکومت پھنس گئی۔ لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت مستعفی ہوتی تو یہ عمران کی جیت ہوتی۔ انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ بدل لیا۔ عمران نے چھ دنوں کا الٹی میٹم دیا اور واپس چلے گئے۔ اب بھی یہ مستعفی ہوتی تو کہا جاتا عمران کے الٹی میٹم کے آگے ڈھیر ہو گئی۔

 شہباز شریف کے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں تھا کہ اب وہ حکومت ہی کرتے۔ چنانچہ مشکل فیصلے لینے شروع کر دیے گئے۔ پٹرول 60 روپے، گیس 47 فیصد اور بجلی  آٹھ روپے یونٹ مہنگی ہو چکی۔ عمران کا بوجھ اب ن لیگ کے سر ہے۔عمران خان اب بھی مزے میں ہیں۔ لوگوں کو جواب اب عمران نے نہیں، ن لیگ نے دینا ہے۔

بصیرت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ وزارت عظمیٰ ن لیگ کے پاس تھی تو وزارت خزانہ پیپلز پارٹی کو دی جاتی تا کہ ذمہ داری کا بوجھ مل کر اٹھایا جاتا۔ وزارت عظمیٰ بھی خاندان میں رکھنے کی بجائے شاہد خاقان عباسی کو دے دی جاتی تو مناسب ہوتا۔ لیکن یہاں شہباز صاحب وزیر اعظم بن گئے، صاحبزادے کو وزیر اعلیٰ بنا لیا۔ وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارت خزانہ کا بوجھ بھی ن لیگ پر ڈال دیا۔ اب حلیف مزے میں ہیں۔ کٹہرے میں اکیلی ن لیگ ہے۔ اور اس کی مبلغ بصیرت اتنی ہے کہ کبھی پورے دو ہزار روپے کا ریلیف دے کر اعلان کیا جاتا ہے کہ عزیز ہم وطنو کوئی پابندی نہیں اس رقم  کو جہاں مرضی خرچ کر لو،یعنی چاہے تو بچوں کو پڑھا لو چاہے سوئٹزرلینڈ کی سیر کر لو اور کبھی آدھے اخبارات اس اشتہار سے بھر دیے جاتے ہیں کی عالی جاہ ترکی جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زرداری صاحب نے بلاول کو وزیر خارجہ بنوا لیا، وہ اپنے امیج بلڈنگ پر دنیا میں نکلے ہیں، جے یو آئی کے صاحبزادگان وزیر بھی ہیں اور ڈپٹی سپیکر بھی، ویسے بھی ان کے اسلامی انقلاب کا راستہ وزارت مواصلات سے ہو کر نکلتا ہے اور وہ بھی انہی کے پاس ہے۔عوامی غم و غصے کا نشانہ صرف ن لیگ بنے گی۔ اقتدار کے آخری دنوں میں یہ حلیف تہتر کے آئین کے تناظر میں اصولی اختلاف کر کے الگ ہو جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اختلاف اگر مہنگائی پر ہوا تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔

بار گاہ اقتدار کے کوزہ گر جگمگاتی سکرینوں پر جب صحافت کو امر کرتے ہوئے اندر کی خبر دیتے ہیں کہ ن لیگ نے اقتدار کی مدت مکمل کرنے کی ضمانت لینے کے بعد مشکل فیصلے کیے ہیں تو ناظرین اور سامعین کوگدگدا جاتے ہیں۔ جس ملک میں کسی حکومت کو دستور پاکستان کا آرٹیکل چھ ضمانت نہ دے سکتا ہوو ہاں یہ نابغے شخصی ضمانت پر اتراتے پھرتے ہیں۔

مشکل فیصلے تو مسلم لیگ نے کر لیے، دوسروں کے حصے کی کالک سے اپنی زلف سیاہ کر کے اسے جوانی سمجھ لیا۔ کچھ مشکل فیصلے بجٹ میں کر لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ایف آئی اے تو ابھی سے وزیر اعظم ا ور وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کا مطالبہ ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے۔ کسی دن ایف آئی اے کے حق میں فیصلہ آ گیا تو ن لیگ کس ضامن کی دیوار گریہ پر سر پھوڑے گی۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ