سری نگر: 122 سال پرانے کارخانے میں کام کرتے ’آخری رنگ ریز‘

بشیر احمد کا کہنا ہے کہ ان کی موت کے ساتھ ہی یہ روایت ختم ہو جائے گی کیوں کہ وہ اس فن کو جاننے والے ’خاندان کے آخری فرد‘ ہیں۔ ان کے خاندان میں کوئی بھی اس فن کو نہیں سیکھنا چاہتا کیوں کہ یہ ایک دم تورٹا ہوا پیشہ ہے۔

بشیر کا کہنا ہے کہ ان کی موت کے ساتھ ہی یہ روایت ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ اس فن کو جاننے والے ’خاندان کے آخری فرد‘ ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

بشیر احمد سری نگر کے چند باقی ماندہ روایتی رنگ ریزوں میں سے ایک ہیں، جو 122 سالہ پرانے کارخانہ میں اکیلے کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خاندان میں کوئی بھی اس روایت کو جاری نہیں رکھنا چاہتا۔

انہوں نے بچپن سے ہی سری نگر کے پرانے شہر کے علاقے بوہرکدل میں قائم ورک شاپ میں کام کیا ہے۔ وہ مشہور کڑھائی والے اونچے پردوں کو رنگ کرتے ہیں، جنہیں پھر کریول اور زنجیر سے سلائی کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

بشیر احمد کا نے بتایا: ’یہ دکان تقریباً 100 سال پرانی ہے، یہ میرے پردادا نے قائم کی تھی۔ میں 35 سال سے یہ کام کر رہا ہوں اور میرے والد نے مجھے سب کچھ سکھایا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد جنگلوں میں جا کر مختلف پودے اکٹھے کرتے تھے تاکہ انہیں رنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے لیکن اب وہ مصنوعی رنگوں کا استعمال کرتے ہیں جن میں کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔

بشیر احمد کے مطابق: ’اس وقت سبزیوں کے رنگ استعمال کیے جاتے تھےجو آج بھی مغرب میں مقبول ہیں۔ خواتین ان پودوں کو ابالنے میں مدد کرتی ہیں جو بعد میں رنگنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘

اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں رنگ کرنے کا فن اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملا تھا، بشیر کہتے ہیں کہ ان کے بچوں نے ان کے نقش قدم پر چلنے سے انکار کر دیا اور اب وہ خاندان میں رنگ کرنے والے آخری فرد ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یوکرین روس جنگ کی وجہ سے مغربی ممالک سے ملنے والے آرڈر رک چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گذشتہ تین چار سال کے دوران کمائی میں کمی کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔

بشیر کا کہنا ہے کہ ان کی موت کے ساتھ ہی یہ روایت ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ اس فن کو جاننے والے ’خاندان کے آخری فرد‘ ہیں۔ ان کے خاندان میں کوئی بھی اس فن کو نہیں سیکھنا چاہتا کیونکہ یہ ایک دم تورٹا ہوا پیشہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا