اسلام آباد کی رہائشی عیشا سیف یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور گھر میں دو گاڑیوں کی موجودگی کے باوجود وہ سکوٹر یا سکوٹی چلا کر تعلیم سے لے کر روزمرہ کے معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہیں، جو پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
پیٹرول کی قیمت ان دنوں تقریباً 234 روپے فی لیٹر ہے، جس سے روزانہ کی بنیاد پر دفاتر، کاروبار یا تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے نکلنے والے افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ گاڑی کا پیٹرول پورا کریں یا باقی اخراجات۔
اسی سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا گاڑی کا متبادل ایک سکوٹی ہوسکتی ہے جو اگر پیٹرول پر چلے تو بچت کا باعث اور اگر الیکٹرک چارج پر تو بچت کے ساتھ ماحول کے لیے بھی سازگار ثابت ہوسکے گی۔
عیشا اور ان کی بہن ایمن، جو میٹرک کی طالبہ ہیں اور ٹیوشن بھی سکوٹی پر جاتی ہیں، نے بتایا کہ اب گھر کے کاموں کے لیے وہ کسی پر انحصار نہیں کرتیں کہ خاندان کے مرد ہی انہیں کہیں لے جائیں، بلکہ وہ خود یہ کام باآسانی انجام دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو ہسپتال جانا ہو یا دوا کی ضرورت ہو تو وہ انہیں بھی لے جاسکتی ہیں۔
ان کے والد اور بھائی کے مطابق وہ اس بات پر بہت مطمئن ہیں کہ دونوں بہنوں نے جلد ہی 50 سی سی کی چھوٹی سکوٹی سیکھ لی اور کم خرچ میں وہ روز اچھا خاصا سفر بھی طے کرلیتی ہیں۔
مزید پڑھیے: موٹر سائیکل سوار لڑکیاں اور ہماری غیرت
عیشا کے بقول: ’ہم پہلے پانچ سو روپے میں سکوٹی کا ٹینک مکمل بھرواتے تھے، جو اب آٹھ سو سے ایک ہزار روپے میں پڑتا ہے اور زیادہ عرصہ چلتا ہے۔‘
دونوں بہنوں نے امید ظاہر کی کہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو وہ گاڑی کی بجائے ایک الیکٹرک سکوٹر بھی خرید سکیں گی۔
کیا الیکٹرک سکوٹی بہتر ہے؟
اس سوال کی کھوج میں ہم راولپنڈی کے ایک سکوٹر شو روم گئے اور مختلف طرح کے پیٹرول اور الیکٹرک سکوٹر دیکھے کہ کون سا بہتر متبادل ہے یا دونوں ہی مسافت کے لیے موزوں ہیں۔
سکوٹیز میں ڈیل کرنے والے علی گوہر نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت بڑھی ہے۔ ’ایک الیکٹرک بائیک کی قیمت پہلے ایک لاکھ 10 ہزار روپے تھی، اب یہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔ اسی طرح الیکٹرک سکوٹی کی قیمت ایک لاکھ 25 ہزار روپے سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے ہے۔‘
علی گوہر کے مطابق ان کے پاس آنے والی 80 فیصد کلائنٹس خواتین ہیں، جو الیکٹرک اور پیٹرول دونوں اقسام کی سکوٹی خریدتی ہیں۔
تاہم انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ سکوٹیز صرف خواتین ہی خریدتی ہیں کیونکہ مردوں کی بڑی تعداد بھی ان کو خریدنے آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بھارت اور پاکستان میں یہ تصور بن گیا ہے کہ صرف خواتین ہی ان کو استعمال کرتی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں 10 اہم معلومات
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے محولیات کے مطابق 2030 تک بیٹری سے چلنے والی 90 فیصد الیکٹرک موٹر سائیکلوں پر منتقل ہونے سے 2050 تک کاربن کے اخراج میں 11 ارب ٹن ڈرامائی طور پر کمی آئے گی۔
اس بارے میں علی گوہر کا کہنا تھا کہ الیکٹرک سکوٹی کا ماحول پر آلودگی والا اثر نہیں ہوتا جبکہ پیٹرول اور فاسل فیول کا برا اثر پڑتا ہے۔
’ایک الیکٹرک بائیک کو آپ چار سے پانچ گھنٹے میں چارج کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اسے 65 سے 75 کلومیٹر چلاسکتے ہیں۔ یہ بجلی کا 1.5 یونٹ لیتی ہے۔‘
’لوگوں نے حوصلہ افزائی کی‘
اسلام آباد کی صحافی مہوش فخر 2016 سکوٹی چلا رہی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بچپن میں سائیکل چلانے سے انہیں سکوٹی چلانے میں بہت مدد ملی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شروع میں لوگ بہت دیکھتے تھے اور بائیک والے مرد پیچھا بھی کرتے تھے مگر جینز پہننے اور ہیلمٹ پہننے سے مدد ملی کیوں کہ لوگ یہ نہیں پہچان پاتے کہ مرد بائیک چلا رہا ہے یا کوئی خاتون۔‘
مہوش نے بتایا کہ اکثر خواتین اور بڑی عمر کے مرد ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ ’مجھے تب بہت اچھا لگتا تھا جب لوگ مجھے آکر پوچھتے تھے کہ آپ نے سکوٹی کہاں سے خریدی اور وہ اپنی بیٹی کے لیے کہاں سے لے سکتے ہیں۔‘
بقول مہوش: ’مجھے گاڑی کی نسبت سکوٹی بہتر لگتی ہے کیونکہ فیول کی مد میں میرا خرچہ 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ سے اب چار ہزار روپے ماہانہ تک آگیا ہے۔‘