روس سے تیل خریدنے کی عجب الجھنیں

اس انتہائی مشکل وقت میں جس میں پاکستان کو اپنے پہلے سے ہی قلیل مالی وسائل کی وجہ سے ایک بہت بڑا بوجھ اٹھانا پڑا ہے، سستی پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا کوئی بھی آپشن سنجیدگی سے پرکھنا چاہیے، لیکن پاکستان کے فیصلہ ساز یہ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔

27 مئی 2022 کی اس تصویر میں کراچی میں ایک پیٹرول پمپ کا ملازم ایک گاڑی میں پیٹرول ڈال رہا ہے۔  پاکستان کو جس موجودہ مالیاتی بحران کا سامنا ہے اس کی کلیدی وجہ پیٹرولیم کی قیمتیں ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حال ہی میں کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں کہ لگا جیسے اب حکومت کو اس بات کا شاید ادراک ہو چکا ہے کہ روس سے تیل خریدنے میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔

مثلاً ایک کابینہ رکن کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کی وزیر مملکت سے لے کر وزارت خارجہ کے سینیئر افسران اور پاکستان کے روس میں سفیر تک، ہر طرف روس سے سستا تیل لینے کی بات شروع کی گئی ہے، لیکن پھر دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ ’مناسب وقت‘ پر پاکستان سے کوئی وزیر ماسکو جا کر روسی حکام سے تیل خریدنے کی بات کر سکتا ہے۔

روسی تیل کسی تیسرے ملک سے خریدنے کی باتیں بھی اہم سیاسی اشخاص کی زبانی سننے کو ملتی ہیں، لیکن پھر اہم ترین شخصیات اندرونی میٹنگز اور پریس کانفرنسوں میں ایک اور راگ الاپتے ہیں۔ پچھلی حکومت کے وزیر حماد اظہر کے 30 مارچ کے خط، جس میں انہوں نے تیل خریدنے کی خواہش قلم بند کی تھی، کا تو روس نے جواب ہی نہیں دیا۔

اور پھر سوال بھی بے بہا، وہ بھی جن کے جواب موجود ہیں۔ مثلاً کیش فلو کا معاملہ جو اتنا بڑا نہیں ہے۔ پاکستان نے اپریل اور مئی میں تیل کی سپاٹ بائنگ کی اور نقد ادائیگی پر ہر ماہ میں تیل کی تقریباً پانچ چھ کھیپیں خریدیں۔

اسی طرح سے کرنسی یعنی ڈالر کے مسائل ہیں۔ نیدرلینڈز نے حال میں روسی کرنسی روبل میں روسی تیل خریدا ہے۔ ایک بار اگر پاکستان دلچسپی کا اظہار کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ ماسکو فروخت کی شرائط پر لچک دکھائے۔ جہاں تک روسی خام تیل اور پاکستان کی ریفائنری کی صلاحیتوں میں مماثلت کا تعلق ہے تو پاکستان روسی تیل خرید سکتا ہے اور مارکیٹ میں تبادلہ کر سکتا ہے۔

غرض ایک سنگین معاملے کا یہ پہلو کچھ سیاسی اور کچھ خارجی دباؤ کے معاملات میں پھنس گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر کس وجہ سے سستا تیل خریدنا ایک سنگین معاملہ بنا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پاکستان کو موجودہ مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اس کی  کلیدی وجہ پیٹرولیم کی قیمتیں ہیں۔ جہاں تیل اور توانائی کی مصنوعات کل درآمدی بل کا تقریباً 25 فیصد بنتی ہیں۔ اس طرح توانائی کی شرح میں اتار چڑھاؤ معیشت کی حالت اور تجارتی توازن پر بڑا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے مزید اثرات افراط زر، کرنسی اور زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ پر پڑتے ہیں۔

روسی تیل کسی تیسرے ملک سے خریدنے کی باتیں بھی اہم سیاسی اشخاص کی زبانی سننے کو ملتی ہیں، لیکن پھر اہم ترین شخصیات اندرونی میٹنگز اور پریس کانفرنسوں میں ایک اور راگ الاپتے ہیں

پاکستان کی سرکاری دستاویز یعنی اقتصادی سروے اس نکتے کو بہت اچھے سے واضح کرتا ہے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں 95.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2022 میں جولائی تا اپریل کے دوران تیل کا درآمدی بل بڑھ کر 17.03 ارب ڈالر ہو گیا، جو پچھلے سال اسی مدت کے دوران 8.69 ارب ڈالر تھا۔

پاکستان کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ یوکرین کی جنگ کے بعد کے عرصے میں بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں شدید کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ 

آخرکار ڈالر بے مثال بلندیوں پر چڑھ گیا ہے اور پاکستان کا تیل کا درآمدی بل آگے بڑھ رہا ہے۔ خوراک سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا، یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ نئی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق یکدم  تیل، گیس اور بجلی سے تمام سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کی قوت خرید میں بہت کمی آئی ہے۔ 

اس انتہائی مشکل وقت میں جس میں پاکستان کو اپنے پہلے سے ہی قلیل مالی وسائل کی وجہ سے ایک بہت بڑا بوجھ اٹھانا پڑا ہے، سستی پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا کوئی بھی آپشن سنجیدگی سے پرکھنا چاہیے، لیکن پاکستان کے فیصلہ ساز یہ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔

روس کے ساتھ عمران خان کی حکومت کی کچھ بات شروع تو ہوئی تھی، جب مارچ کے وسط میں مغربی دباؤ کا سامنا کرنے کے بعد روس نے دوسرے ممالک کے ساتھ پاکستان کو تیل فروخت کرنے کی آفر کی تھی اور ماسکو میں پاکستان کے سفیر نے اسلام آباد کو آگاہ کیا تھا، جس پر حماد اظہر نے پاکستان کی دلچسپی کے اظہار کے طور پر ایک خط لکھا تھا۔

معاملہ اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو پی ایس او حکام سے لین دین کے ڈھانچے کے بارے میں ایک پریزنٹیشن موصول ہوئی جسے ممکنہ طور پر روسی تیل کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو نئی حکومت کو آگے بڑھانا چاہیے تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن شاید خارجی خصوصاً امریکہ کا دباؤ ہے اور اس کے آئی ایم ایف پر اثر و رسوخ نے پاکستان کی موجودہ حکومت کو تیل کے معاملے پر روس کو شامل کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

امریکہ اور روس کے بگڑتے تعلقات اور یوکرین پر روسی حملے کے پس منظر میں پاکستان اور روس کے تعلقات امریکی ریڈار پر ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو سابق وزیراعظم عمران خان کو فروری کے آخر میں روس کا پہلے سے طے شدہ دورہ کرنے سے روکنے کے لیے فون کیا تھا۔ مغربی سفارت کار اس بات پر اصرار کرتے  تھے کہ پاکستان خارجہ پالیسی بالخصوص پاکستانی وزیراعظم کے دورہ روس پر ایک آواز سے بات نہیں کرتا۔ اس کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے مارچ کے اوائل کی کیبل نے اس بات کی تصدیق کی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اصرار کیا کہ پاکستان کے روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے امریکہ کو بہت پریشان کیا ہے۔

پاکستان پر دباؤ کے علاوہ برطانیہ کے حمایت یافتہ امریکا نے دوسرے ممالک پر بھی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ وہ روس سے تیل اور گیس نہ خریدیں۔ تاہم بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور ہنگری سمیت بیشتر ممالک نے ایسے فیصلے کیے، لیکن بہت کم ممالک امریکی دباؤ کے سامنے جھک گئے۔

تمام دباؤ کو دور کرتے ہوئے بھارت نے درآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ روس سے اس کی خام تیل کی درآمد فروری میں 100,000 بیرل یومیہ سے بڑھ کر اپریل میں 370,000 یومیہ ہو کر مئی میں 870,000 یومیہ ہو گئی۔

ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے ثابت قدم رہے ہیں۔ واضح طور پر پاکستان کی موجودہ حکومت نے ’محفوظ رہنے‘ اور  مغربی دباؤ کے نتیجے  میں روس سے تیل خریدنے کے معاملے میں فی الحال خود کو زیادہ فعال کرنے سے گریز کیا ہے۔ 

پاکستان کی فیصلہ سازی بظاہر ابہام اور خوف کی الجھن کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کمزوریاں ایک ایسے ملک کو نہیں جچتیں، جو اقتصادی خطرات میں ڈوب رہا ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ