سندھ بلدیاتی انتخابات: وفاق کے اتحادیوں میں دراڑ کا باعث؟

26 جون کو صوبے کے 14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جبکہ جمعیت علمائے اسلام دوسرے نمبر پر رہی لیکن دیگر جماعتوں نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزام عائد کیے۔

26 جون 2022 کو لاڑکانہ پریس کلب میں جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے مرکزی رہنما اور کنوینر لاڑکانہ عوامی اتحاد اور سابق سینیٹر صفدر عباسی اور ضلعی امیر جے یو آئی مولانا ناصر محمود سومرو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے (فوٹو: شہزاد علی خان)

سندھ کے 14 اضلاع میں 26 جون کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے غیر حتمی نتائج کے مطابق میں پیپلز پارٹی سندھ کے چار ڈویژنز کی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام صوبے میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت بن چکی ہے۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 14 میں سے 12 اضلاع میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے جبکہ لاڑکانہ، میرپورخاص، بینظیر آباد اور سکھر ڈویژن کی بلدیاتی حکومت بھی پیپلز پارٹی کو ہی ملنے کی امید کی جارہی ہے۔

الیکشن کمیشن 14 اضلاع کی پولنگز کا حتمی نتیجہ 30 جون کو جاری کرے گا تاہم غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق اگر لاڑکانہ ڈویژن کی بات کی جائے تو لاڑکانہ ڈویژن میں مجموعی طور پر پانچ اضلاع ہیں، جن میں ضلع کونسل کی 46 میں سے 40 نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق جیت چکے ہیں اور چار یونین کونسلوں پر تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے امیدوار جیتے ہیں۔

انہڑ خاندان نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیا ہے اور اس بار بھی وہ اپنی ڈوکری اور باقرانی کی ٹاؤن کمیٹی کا الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ ایک ٹاؤن کمیٹی پیپلز پارٹی نے جیتی اور ایک ٹاؤن کمیٹی کے ایک وارڈ کا نتیجہ رک جانے کے باعث فیصلہ ابھی نہیں کیا جاسکتا۔

مونسپل کمیٹی کی بات کی جائے تو نئوڈیرو اور رتوڈیرو کے مجموعی طور پر 17 وارڈز میں پیپلز پارٹی نے کلین سوئپ کیا اور ٹاؤن میونسپل کمیٹیوں کی 20 نشستوں میں سے بھی پیپلز پارٹی 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی دعوے دار ہے، لہذا لاڑکانہ میں ضلع کونسل چیئرمین اور میئر اب پیپلز پارٹی کے ہی آنے کی امید ہے۔

لاڑکانہ ڈویژن کے ضلع قمبر شہدادکوٹ میں بھی پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت ملی اور ضلع کی تمام 52 یونین کونسلوں پر پیپلز پارٹی کا دعویٰٰ ہے کہ وہ جیت چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر دو میونسپل کمیٹیوں اور سات ٹاؤن کمیٹیوں میں بھی پیپلز پارٹی جیت چکی ہے اور ضلعی حکومت پیپلز پارٹی کی ہی ہوگی۔

ضلع جیکب آباد کی کل 44 یونین کونسلوں میں سے 30 سے زائد پیپلز پارٹی اپنے نام کر چکی ہے جبکہ دیگر پر جمیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے امیدوار جیتے ہیں تاہم جیکب آباد کی تینوں ٹاؤن کمیٹیوں میں بھی پیپلز پارٹی جیت چکی اور میونسپل کمیٹی کے 31 وارڈز میں سے 27 پر پیپلز پارٹی نے جیت کا دعویٰٰ کیا ہے۔ اسی طرح ضلع کونسل چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کا ہی آنے کی امید کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیے: سندھ: بلدیاتی انتخابات کے دوران دو افراد ہلاک متعدد زخمی

ضلع شکارپور میں یونین کونسلوں کی مجموعی 55 نشستوں میں سے 31 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جبکہ 12 نشستوں پر جی ڈی اے اور 10 آزاد امیدوار سامنے آئے ہیں جبکہ ضلع کی چھ ٹاؤن کمیٹیوں میں سے چار پر پیپلز پارٹی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ایک پر جی ڈی اے اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے تاہم میونسپل کمیٹیوں کے 30 وارڈز میں سے 27 پر پیپلز پارٹی نے فتح کا دعویٰٰ کیا ہے اور ضلع کونسل چیئرمین پیپلز پارٹی کا آنے کی امید ہے۔

ضلع کندھ کوٹ کشمور کی بات کی جائے تو کل 41 یونین کونسلوں میں سے 37 پر پیپلز پارٹی کا فتح حاصل کرنے کا دعویٰٰ ہے جبکہ واحد میونسپل کمیٹی کے 16 وارڈز میں سے 12 پر پیپلز پارٹی امیدواروں نے فتح حاصل کی ہے، تاہم ضلع کی چھ ٹاؤن کمیٹیوں پر بھی اکثریتی جیت پیپلز پارٹی کی رہی ہے۔

سکھر ڈویژن میں مجموعی طور پر تین اضلاع ہیں اور اگر سکھر ضلع کی بات کی جائے تو کل 42 یونین کونسلوں میں سے 28 پر پیپلز پارٹی جیت کی دعوے دار ہے جبکہ شہر کی 32 یونین کمیٹیوں کی نشستوں میں سے بھی 27 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سکھر ضلع کی تین ٹاؤن کمیٹیوں اور دو میونسپل کمیٹیوں پر بھی جیت کا دعویٰ کیا ہے اس لحاظ سے سکھر کا میئر اور ضلع کونسل چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کا ہی آنے کی امید ہے۔

سکھر کے بلدیاتی انتخابات میں ایک اہم پیش رفت جو کہ پہلی بار سامنے آئی ہے، وہ خواتین امیدواروں کے حوالے سے ہے۔ سکھر میٹروپولیٹن یونین کمیٹی میں پیپلز پارٹی سے وابستہ انعم ارسلان یوسی ون سے بلا مقابلہ کامیاب قرار پائی ہیں۔ انعم ارسلان سابق میئر سکھر ارسلان اسلام شیخ کی اہلیہ ہیں جبکہ ان کے شوہر ارسلان شیخ بھی یوسی دو سے بلا مقابلہ کامیاب ہوکر دوبارہ میئر سکھر کے مضبوط امیدوار ہیں۔

سکھر ڈویژن کے ضلع گھوٹکی پر پیپلز پارٹی کی جیت ابھی تک غیر یقینی ہے۔ ضلع کی 66 یونین کونسلوں میں سے 34 نشستوں پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں نے جیت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ 32 پر پیپلز پارٹی امیدوار جیتے ہیں، تاہم ضلع کی چار ٹاؤن کمیٹیوں اور دو میونسپل کمیٹیوں پر پیپلز پارٹی کی جیت سامنے آئی ہے۔

 ضلع گھوٹکی کے مہر خاندان کا آپس میں مقابلہ ہمیشہ سیاسی رخ کو بدلنے میں بظاہر کامیاب رہا ہے، اس لیے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ کس پارٹی کو جیت حاصل ہوئی تاہم مقابلہ ٹکر کا تھا۔

ضلع خیرپور میرس کے نتائج تمام اضلاع کی نسبت دلچسپ رہے ہیں۔ ضلع کی 88 یونین کونسلوں میں سے 50 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جیت کے دعوے دار ہیں اور حیران کن طور پر پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ نشستیں آزاد امیدواروں کے حاصل کرنے کی اطلاعات ہیں جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اپنے آبائی ضلعے میں تیسرے نمبر پر رہی ہے لیکن حتمی صورت حال الیکشن کمیشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد سامنے آئے گی۔

ضلع خیرپور میرس میں اس بار پیپلز پارٹی کو ایک اور سیٹ بیک کا سامنا رہا ہے اور وہ میونسپل کمیٹی خیرپور کے وارڈ نمبر ون سے سماجی کارکن پروین شیخ کی جیت ہے۔ پروین شیخ بحیثیت خاتون پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا حصہ بنیں۔ ان کی والدہ بھی مزدوری کرتی ہیں اور ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے لیکن بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے مدمقابل منٹھار شیخ نامی پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار کو شکست دی، جس کے لیے خیرپور میرس سے پیپلز پارٹی کے نامور امیدواروں نے الیکشن مہم چلائی لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی وہاں سے جیت نہیں سکی۔

بینظیر آباد ڈویژن کی بات کی جائے تو بینظیر آباد میں بھی تین اضلاع ہیں جس میں بینظیر آباد کی 59 یونین کونسلوں میں سے 58 پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے جیت حاصل کی ہے جبکہ میٹروپولیٹن کی 19 یونین کمیٹیوں میں سے 17 پیپلز پارٹی نے اپنے نام کیں اور ضلع کی آٹھ ٹاؤن کمیٹیوں اور میونسپل کمیٹیوں کی نشست بھی جیت چکی ہے۔ اس طرح سے امید کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی بینظیر آباد میں اپنا میئر اور ضلع کونسل چیئرمین لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

ضلع سانگھڑ میں بھی پیپلز پارٹی 73 یونین کونسلوں میں سے 50 سے زائد پر جیت کی دعوے دار ہے جبکہ بتایا جارہا ہے کہ 13 سے زائد نشستوں پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کامیاب رہی ہے۔

جمیت علمائے اسلام نے بھی چند نشستیں اپنے نام کیں جبکہ سانگھڑ ان 14 اضلاع کا وہ واحد ضلع ہے جہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے چند امیدوار بھی جیتے ہیں۔ اسی طرح سے بتایا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے نو ٹاؤن کمیٹیوں اور تین میونسپل کمیٹیوں پر بھی فتح حاصل کی جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دسرے نمبر پر سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت رہی۔

ضلع نوشہروفیروز میں بھی پیپلز پارٹی کی بھاری اکثریت میں جیت سامنے آئی ہے۔

میرپور خاص ڈویژن کی بات کی جائے تو ضلع کی 54 میں سے 47 یونین کونسلوں پر پیپلز پارٹی کی فتح سامنے آئی جبکہ دیگر نشستیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور آزاد امیدواروں نے لیں اور شہر کی 22 یونین کمیٹیوں میں سے 18 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جیتے۔ اسی طرح ضلع کی ساتوں ٹاؤن کمیٹیوں پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہی فتح حاصل کر پائے ہیں۔ اس طرح سے میرپور خاص کا میئر اور ضلع کونسل چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کا آنے کی امید ہے۔

میرپور خاص ڈویژن کے ضلع عمرکوٹ کی 42 یونین کونسلوں میں سے 39 پر پیپلز پارٹی کی برتری رہی جبکہ سات میں سے چھ ٹاؤن کمیٹیوں پیپلز پارٹی جیتی اور ایک ٹاؤن کمیٹی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے حاصل کی جبکہ میونسپل کمیٹیوں کے 14 وارڈز میں سے آٹھ پیپلز پارٹی نے جیتے اور چھ پر تحریک انصاف سامنے آئی ہے۔ عمرکوٹ کی ضلع کونسل بھی پیپلز پارٹی جیت چکی ہے۔

ضلع تھرپارکر میں 64 یونین کونسلیں، چھ ٹاؤن کمیٹیاں اور ایک میونسپل کمیٹی ہے تاہم ضلع تھرپارکر کے نتائج متضاد ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثریتی طور پر جیت چکی ہے جبکہ تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے پریس کانفرنس کرکے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے امیدواروں نے اکثریت حاصل کی ہے تاہم اس ضلعے میں الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج آنے سے قبل کچھ بھی کہنا مشکل ہوگا۔

اس طرح سے مجموعی طور پر 14 میں سے 12 اضلاع پر بظاہر پیپلز پارٹی کی جیت سامنے آئی ہے جبکہ ضلع گھوٹکی اور تھرپارکر پر الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج آنے پر صورت حال واضح ہوگی۔

بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے بعد لاڑکانہ پریس کلب میں بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹکل سیکریٹری جمیل سومرو نے پریس کانفرنس کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ووٹر لسٹوں میں بیشتر ووٹرز کے ووٹ ان کے روایتی پولنگ سٹیشنز سے ہٹا کر مختلف پولنگ سٹیشنز پر ڈالے گئے جس کے باعث ووٹر پریشان رہے، خاص کر خواتین ووٹرز کو شدید پریشانی کا سامنا رہا اور یہی وجہ ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پر لوگوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اپوزیشن جماعتوں کے جیت کر آنے والے امیدواروں کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کام عوام کی خدمت کرنے کو تیار ہیں۔

’دھاندلی زدہ انتخابات‘

دوسری جانب لاڑکانہ پریس کلب میں جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو سمیت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے مرکزی رہنما اور کنوینر لاڑکانہ عوامی اتحاد سابق سینیٹر صفدر عباسی، ایم پی اے معظم علی عباسی، ضلعی امیر جے یو آئی مولانا ناصر محمود سومرو نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور بلدیاتی انتخابات کو دھاندلی اور تشدد زدہ قرار دے کر دوبارہ کروانے کا مطالبہ کیا۔

اس موقعے پر مولانا راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ 26 جون کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ انتخابات نہ صرف دھاندلی زدہ تھے بلکہ مبینہ طور پر غنڈہ گردی اور تشدد زدہ بھی تھے۔

راشد محمود سومرو کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی نے 14 اضلاع میں اپنے دو ہزار سے زائد امیدوار کھڑے کیے، جنہیں سات لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ ’جے یو آئی اس وقت سندھ میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ہے لیکن اس کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات دوبارہ کروائے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر علاقوں میں فائرنگ، تشدد، لڑائی جھگڑوں کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس وقت قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’حکمران جماعت نے پولیس کی موجودگی میں دھاندلی کروائی۔‘

راشد محمود سومرو نے وزیراعظم شہباز شریف سے ان واقعات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پی ڈی ایم میں ان کے اتحادی ہوں اور سندھ میں ہمارے کارکنان پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے جائیں یا تشدد ہو اس لیے مرکزی قیادت سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ حکومت کے ساتھ اتحاد میں رہنے پر اب ذرا غور کریں۔‘

راشد محمود سومرو کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ میں اگر ایسی ہی صورت حال رہی تو ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور جے یو آئی سندھ میں آئندہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔‘

پریس کانفرنس کے دوران رکن سندھ اسمبلی معظم عباسی کا کہنا تھا کہ ’انتخابات سے قبل ہی حلقہ بندیوں کو مینج کیا گیا، پولنگ کے دن سندھ میں ایسا ماحول بنایا گیا کہ لاڑکانہ میں بھی خون خرابہ ہو۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی سرپرستی میں ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن کہیں نظر نہیں آئی، بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔‘

جے یو آئی کی جانب سے 14 اضلاع میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ چند روز میں گھوٹکی سے وزیراعلیٰ سندھ ہاؤس تک لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں گے اور سندھ حکومت کے خلاف اب کھل کر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔

اس مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو نے جوابی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’الیکشن میں ہلکی پھلکی نوک جھوک ہونا معمول کی بات ہے، لیکن سب کو مل کر چلنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن پر اعتراضات پیپلز پارٹی کو بھی ہیں لیکن دھاندلی کے الزامات بے بنیاد ہیں، تاہم اگر جمعیت علمائے اسلام کے پاس دھاندلی کے شواہد ہیں تو وہ عدالتوں میں اور الیکشن کمیشن کے پاس شواہد لے کر جاسکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست