سندھ: بلدیاتی انتخابات کے دوران دو افراد ہلاک متعدد زخمی

سکھر میں تصادم کے نتیجے میں زخمی افراد کو تعلقہ ہسپتال روہڑی اور سکھر منتقل کیا گیا تھا جہاں زخمی کارکن ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا۔

پانچ دسمبر 2015 کی اس تصویر میں ایک خاتون بلدیاتی انتخابات کے دوران کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن پر اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔ سندھ میں چھ سال بعد بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت پولنگ آج ہو رہی ہے (فائل فوٹو: ایف پی/ رضوان تبسم)

سندھ کے محتلف اضلاع میں اتوار کو بلدیاتی انتخابات کے دوران کم از کم دو افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

سکھر

پولیس کے مطابق سکھر کے قریب دبر کے علاقے میں انتخابات میں حصہ لینے والی دو جماعتوں کے کارکنان  میں تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

اس واقعے کے بعد پولنگ روک دی گئی تھی اور تصادم کے نتیجے میں زخمی افراد کو تعلقہ ہسپتال روہڑی اور سکھر منتقل کیا گیا تھا جہاں زخمی کارکن ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا۔

جان سے جانے والے نوجوان کی شناخت عبدالقادر جاگیرانی کے نام سے ہوئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ہلاک ہونے والے نوجوان کی میت ورثا کے حوالے کردی گئی ہے اور کشیدگی کے باعث متاثرہ پولنگ سٹیشن پر پولنگ موخر کردی گئی ہے۔

ضلع  قمبر شھدادکوٹ

تحصیل وارہ یونین کونسل حمل میں پولنگ اسٹیشن پر دو گروپوں کے درمیان جھڑپ میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پولیس کے مطابق جھڑپ میں دو سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا استعمال کیا اور وہاں بھی پولنگ کا عمل روک دیا گیا ہے۔

قمبر یوسی جیئن ابڑو میں بھی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے حامیوں کے درمیان تصادم ہوا لیکن پولیس نے وقوعہ پر پہنچ کر ایک امیدوار کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کے مطابق واقعہ خواتین پولنگ میں ووٹنگ کے معاملے پر پیش آیا۔

ضلع قمبر کی تحصیل شہدادکوٹ یو سی نمبر 50 ہزار واہ پولنگ اسٹیشن کوٹ جھڑیو میں بھی جھگڑا سیاسی کارکنان میں جھگڑا ہوا جس میں  8 افراد زخمی ہوئے۔

ضلع نواب شاہ / بے نظیر آباد

نواب شاہ میں پولنگ کے عملے کے مطابق مسلح افراد نے پولنگ اسٹیشن پر حملہ سامان چھین کر فرار ہوگئے۔

پولنگ اسٹیشن 26 سوشل سکیورٹی  ڈسپینسری یونین کمیٹی آٹھ کے وار ڈ تین اولڈ نواب شاہ پولنگ اسٹیشن پر نامعلوم مسلح افراد پولنگ عملے کویرغمال بنا کر بیلٹ پیپر چھین کر فرار ہوئے مسلح افراد کی جانب سے پولنگ اسٹیشن پر توڑ پھوڑ کی گئی۔

ضلع سانگھڑ کی تحصیل ٹنڈو آدم

ٹنڈوآدم میں میونسپل کمیٹی کے وارڈ نمبر 13 میں ایک امیدوار اپنے مخالفین کے مبینہ تشدد سے زخمی ہوگئے جبکہ ان کے بڑے بھائی 45 ہلاک ہوگئے ہیں۔

زخمی امیدوار کو نجی ہسپتال لایا گیا جہاں سے ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے تعلقہ ہسپتال منتقل کردی گئی ہے۔

واقعہ کے بعد تحریک انصاف کی مقامی قیادت اور کارکنان کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچ گئی ہے۔

سندھ میں چھ سال بعد بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے سلسلے میں آج پولنگ ہوئی جہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں مقابلہ ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سندھ کے چار ڈویژنز لاڑکانہ، سکھر، بینظیر آباد اور میرپور خاص کے 14 اضلاع لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ کشمور، سکھر، خیرپور میرس، گھوٹکی، بینظیر آباد، سانگھڑ، نوشہروفیروز، میر پورخاص، عمرکوٹ، تھرپارکر میں پولنگ آج (26 جون کو) ہو رہی ہے جبکہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں پولنگ 24 جولائی کو ہوگی۔

صبح نو بجے شروع ہونے والی پولنگ شام پانچ بجے تک جاری رہے گی، جس کے دوران تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد ووٹرز نو ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ 37 ہزار سے زائد پولیس اہلکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

دیہی سندھ میں آج ہونے والی پولنگ میں ووٹرز کو سبز، سفید اور گلابی رنگ کے بیلٹ پیپرز دیئے جائیں گے، جس میں گلابی رنگ کا بیلٹ پیپر ضلع کونسل ممبر کے انتخاب، سبز رنگ کا چیئرمین، وائس چیئرمین، یونین کونسل اور ٹاؤن میونسپل کمیٹی جبکہ سفید بیلٹ پیپر جنرل وارڈ ممبر کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

24 جولائی کو اربن سندھ میں ہونے والے انتخاب میں صرف دو یعنی سفید اور سبز رنگ کے بیلٹ پیپرز کا استعمال ہوگا۔

ووٹنگ کے بعد یونین کونسلز پر مشتمل دیہی علاقوں سے جیتنے والے امیدوار ضلع کونسل کا ہاؤس مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستوں پر امیدواروں کو منتخب کریں گے۔

مخصوص نشستوں پر خواتین کی 33 فیصد نشستیں ہیں جبکہ مزدوروں، نوجوانوں اور اقلیتوں کی پانچ پانچ فیصد نشستیں ہیں۔ پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں اس بار معذوروں اور خواجہ سراؤں کی بھی ہاؤس میں نشستوں کا تناسب رکھا گیا ہے۔

اسی طرح شہر کی ٹاؤن میونسپل کمیٹیوں پر جیتنے والے چیئرمین میٹروپولیٹن شہر کی کونسل کا ہاؤس مکمل کریں گے اور وائس چیئرمین ٹاؤنز کی سطح پر ہاؤس کو مکمل کریں گے۔

اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد ضلع کونسل چیئرمین، وائس چیئرمین اور شہر کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔

سیاسی جماعتوں کے اعتراضات

سندھ کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں نے حالیہ بلدیاتی انتخابات پر متعدد اعتراضات بھی اٹھائے ہیں۔

اس سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو نے انڈپینڈنٹ  اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سندھ حکومت کی جانب سے اپنی مرضی سے منظور کردہ بلدیاتی بل کو سندھ کی تمام جماعتیں مسترد کر چکی ہیں جبکہ اس بل کے سیکشن 73 اور  74 اے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ انہیں ختم کیا جانا چاہیے تاہم صوبائی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا۔‘

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ: سندھ بلدیاتی الیکشن ترمیمی قانون کی دو شقیں کالعدم قرار

اسی لیے جمعیت علمائے اسلام، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پاک سرزمین پارٹی  سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات ملتوی کروانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں گئیں کہ بل میں سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوں تاہم سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا کہ انتخابات سپریم کورٹ کے احکامات پر ہو رہے ہیں اور عدالت عظمیٰ ہی انہیں ملتوی کرسکتی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے 2023 امیدوار سندھ کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

مولانا راشد محمود سومرو کا بلدیاتی انتخابات سے قبل ہونے والی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’حکمران جماعت نے مبینہ طور پر حلقہ بندیاں مخالف جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے میکنزم کے تحت کیں۔‘

اپنے حلقے حیدر ٹاؤن میونسپل کمیٹی نمبر 1 کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’سابقہ بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی یہ یونین کمیٹی جیتی تھی تاہم اب ان کی ایک یو سی میں 18 نئے دیہات کو شامل کردیا گیا ہے جس میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقے آتے ہیں جبکہ صرف چھ پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں جن کا درمیانی فاصلہ تقریباً نو کلومیٹرز ہے۔ اسی طرح شہر کی چند یونین کمیٹیوں میں ووٹرز کی تعداد 23 ہزار تو کسی میں صرف پانچ ہزار تک بھی ہے۔‘

مولانا راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ ’اگر پیپلز پارٹی نے عوامی مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی تو گھوٹکی سے وزیراعلیٰ سندھ ہاؤس تک مارچ کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے: سندھ بلدیاتی نظام بل: اختیارات میں ’کمی‘ پر اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج

دوسری جانب لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کو 2018 کے عام انتخابات اور 2019 کے ضمنی انتخابات میں شکست دینے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ایم پی اے معظم عباسی کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی الیکشن نہیں سلیکشن کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور محکمہ صحت سمیت متعدد محکموں میں تبادلے اور ٹرانسفرز کیے گئے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ سمیت پولیس ان کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔‘

اس تمام صورت حال پر پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹکل سیکریٹری جمیل سومرو کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی سیاسی جماعت میں اتنی ہمت نہیں کہ پیپلز پارٹی کا اکیلے یہاں مقابلہ کرے۔‘

بقول جمیل سومرو: ’مخالف جماعتیں لاڑکانہ عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہی ہیں جس میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے مد مقابل ہے لیکن پیپلزپارٹی نے شہر میں اتنے ترقیاتی کام کروائے ہیں کہ اب الیکشن سوئپ کریں گے اور مخالفین کو شکست ہوگی۔‘

14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ویسے تو پیپلز پارٹی بظاہر مظبوط ترین سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے، جس کی ایک مثال ضلع جیکب آباد ہے جہاں 44 یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلز میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں جبکہ ضلع قمبر شہدادکوٹ، ضلع کندھ کوٹ کشمور، ضلع سکھر، ضلع بینظیر آباد، ضلع نوشہروفیروز، ضلع میرپورخاص میں بھی پیپلزپارٹی بظاہر کافی مظبوط سیاسی جماعت ہے۔

مزید پڑھیے: سندھ: ’بلدیاتی الیکشن ملتوی ہوئے تو 2024 سے پہلے ممکن نہیں‘

تاہم لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ لاڑکانہ عوامی اتحاد سے ہے، جس میں عباسی خاندان کی پیپلز پارٹی ورکرز، جمعیت علمائے اسلام، تحریک انصاف، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جماعت اسلامی سمیت قوم پرست جماعتیں شامل ہیں۔ یہ اتحاد 2018 کے عام انتخابات اور 2019 کے ضمنی انتخابات میں لاڑکانہ شہر کی نشست پی ایس 11 دو پر پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچار کرچکا ہے۔

اسی طرح خیرپور میرس اور ضلع سانگھڑ  کی بات کی جائے تو وہاں پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینا متوقع ہے۔

ضلع شکارپور میں اب تک 13 امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں جن میں پانچ امیدوار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے، پانچ پیپلز پارٹی کے، ایک جمعیت علمائے اسلام اور دو آزاد امیدوار شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق ضلع کی 55 یونین کونسلز میں سے بیشتر پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ہی ناراض ارکان بطور آزاد امیدوار لڑ رہے ہیں، جنہیں ماضی میں ٹکٹ دیا گیا لیکن اس بار نہیں اور ایسے امیدواروں کو بھی پیپلز پارٹی رہنماؤں کی ہی پس پردہ سپورٹ حاصل ہے جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی اس ضلع میں کافی مستحکم دکھائی دیتی ہے۔

ضلع گھوٹکی کی بات کی جائے تو اس علاقے کے سب سے مقبول سیاسی خاندان مہر برادری کے سردار ہی ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنمائی سردار علی گوہر خان مہر کر رہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے سردار محمد بخش مہر، شہریار شر اور خالد احمد لونڈ رہنمائی کر رہے ہیں۔

ضلع تھرپارکر اور عمرکوٹ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے۔ تھرپارکر کا ارباب خاندان بھی دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک جانب تحریک انصاف کے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ارباب لطف اللہ ہیں جبکہ وہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی ایک بڑا روحانی ووٹ بینک موجود ہے جو کہ ہمیشہ تحریک انصاف کو سپورٹ کرتا ہے۔

عمرکوٹ پاکستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں ہندو برادری اکثریت اور مسلمان اقلیت میں ہیں۔ عمر کوٹ سے تحریک انصاف کے منتخب ایم این اے لعل چند تحریک انصاف کو جتوانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے نواب تیمور تالپور پیپلزپارٹی کی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں۔

بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی، جمیت علمائے اسلام، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، تحریک انصاف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کے درمیان مقابلہ ہے تاہم پہلی بار تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن کے تمام اضلاع میں اپنے امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان