سپریم کورٹ: سندھ بلدیاتی الیکشن ترمیمی قانون کی دو شقیں کالعدم قرار

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال منظور ہونے والی سندھ لوکل باڈیز ترمیمی ایکٹ کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ قانون کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی یقینی بنائی جائے۔

سپریم کورٹ نے منگل کو سندھ میں بلدیاتی اختیارات کے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سندھ بلدیاتی انتخابات ترمیمی قانون 2021 کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دے دیا۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد نے منگل کو ہونے والی سماعت میں سندھ میں اپوزیشن پارٹی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔ 

کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 140 کے تحت بلدیاتی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے اور مقامی حکومتوں کے پاس بلدیاتی اختیارات ہیں۔

عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت مقامی حکومتوں کے ساتھ اچھے پیشہ ورانہ تعلقات قائم رکھنے کی پابند ہے۔ 

عدالت نے حکم دیا کہ آئین کے تحت بلدیاتی حکومت کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ 

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال منظور ہونے والی سندھ لوکل باڈیز ترمیمی ایکٹ کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ قانون کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی یقینی بنائی جائے۔

شق نمبر 74 کے تحت صوبائی حکومت مقامی حکومت کے کسی بھی ادارے کو اپنے انتظام میں لی سکتی ہے یا واپس بھی کرسکتی ہے جبکہ شق نمبر 75 کے تحت حکومت کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی سربراہی کر سکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت بااختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے اور بلدیاتی حکومت کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کر سکتی۔  

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے 2013 کے بلدیاتی قانون میں ترامیم کی تھیں، جس کے بعد کئی سیاسی پارٹیوں نے قانون کے خلاف احتجاج کیا اور پی ٹی آئی، متحدہ قومی موومنٹ، پاک سر زمین پارٹی اور جماعت اسلامی نے اس قانون کو سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان جماعتوں نے عدالتوں میں دائر اپنی درخواستوں میں لوکل باڈیز ایکٹ کی شق 74 اور75 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کے معاملے میں صوبائی حکومتوں کو حاصل آئینی اختیارات پر سوالات اٹھائے اور موقف اپنایا کہ یہ شقیں صوبائی حکومت کو بے پناہ طاقت دیتی ہیں اور آئین کے آرٹیکل 140 اے سے متصادم ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 74 اور 75 کے علاوہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سیکشن 18 کو بھی کالعدم قرار دیا جائے، اور سندھ حکومت کو کے ایم سی کے تمام واجبات فوری ادا کرنے اور عبوری بلدیاتی نمائندوں کو آرٹیکل 140اے کے تحت مکمل اختیارات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں سندھ حکومت کو ضلع ٹیکس سود سمیت کے ایم سی کو دینے، کراچی میں پانی اور سیوریج کا نظام مقامی حکومت کے حوالے کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔

بلدیاتی نظام ترمیمی بل 2021 میں کیا تبدیلیاں کی گئیں؟

2021 کی ترامیم کے بعد سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کورپریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا ہے۔

اس کے علاوہ پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے اور متعدی بیماریوں سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا گیا ہے۔ 

بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد میں کارپوریشنز لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہوں گی۔

یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے، جبکہ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔

ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن 50 لاکھ آبادی والے شہر میں قائم کی جائیں گی۔

ٹاؤن میونسپل کونسل کےارکان کی مدت چار سال ہو گی۔ میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا۔

سندھ حکومت نے بلدیاتی نظام کے قانون میں اس طرح کی ترامیم پہلی بار نہیں کی ہیں۔ بلکہ 2013 میں اس وقت کے سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی حکومت نے بھی مقامی حکومتوں سے اختیارات لینے کے لیے ترامیم کی تھی، جسے تب بھی ایم کیو ایم نے عدالت میں چلینج کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان