بھارت: اودے پور میں ہندو کے قتل کے بعد کشیدگی میں اضافہ

ریاست راجستھان میں موبائل انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹے کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔ اجتماعات کو روکنے کے لیے کئی علاقوں میں ایک ماہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور پرتشدد جھڑپوں کے پیش نظر 600 اضافی پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

ہندوؤں کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت کے کارکنان اودے پور میں 29 جون 2022 کو ہندو درزی کے قتل کے حلاف مظاہرے کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کے مغربی شہر اودے پور میں مذہبی بنیادوں پر قتل کے واقعے میں بُغدا لہرانے والے دو مسلمانوں نے ایک ہندو درزی کا سر قلم کر دیا جس کے بعد اردگرد کے علاقوں میں دو برادریوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

درزی کے قتل کا واقعہ منگل کو پیش آیا۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب ملک میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم بڑھ رہی ہے۔

پوری ریاست راجستھان میں موبائل انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹے کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔ اجتماعات کو روکنے کے لیے کئی علاقوں میں ایک ماہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور پرتشدد جھڑپوں کے پیش نظر 600 اضافی پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

قتل ہونے والے درزی کا نام کنہیا لال تھا جن پر دو افراد نے تیزدھار آلے کے کئی وار کیے اور ان کا سر مبینہ طور پر ان کی دکان میں قلم کر دیا۔

دو ملزمان کی شناخت غوث محمد اور ریاض اختری کے نام سے ہوئی ہے۔ انہیں پولیس نے منگل کو گرفتار کر لیا تھا۔

دونوں لوگوں نے قتل کی خوفناک ویڈیو بنائی بعد ازاں ایک اور ویڈیو میں درزی کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

ویڈیو میں انہیں بغدے لہراتے، لال کے قتل پر فخر کا اظہار کرتے اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھا گیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے مودی کی حکمران جماعت کی ترجمان کے پیغمبر اسلام کے خلاف کلمات کی حمایت کے جواب میں درزی کو قتل کیا۔

بدھ کو وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے ملک کے انسداد دہشت گردی کے ادارے اور نیشنل انوسٹی گیش ایجنسی (این آئی اے) کو ہدایت کی کہ کو قتل کی تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور واقعے میں ’کسی تنظیم یا بین اقوامی روابط کے ملوث ہونے‘ کی مکمل طور پر چھان بین کریں۔

کہا جارہا ہے کہ مقتول نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں بی جے پی کی ترجمان نوپورشرما کی حمایت کی گئی تھی۔ شرما نے جون میں پیغمبر اسلام اور ان کی ازواج کے بارے میں اشتعال انگیز بیان دیا تھا۔

حکمران جماعت نے شرما کو معطل کر دیا لیکن ان کے کلمات درجنوں مسلم اکثریتی ممالک کی طرف سے بدترین سفارتی ردعمل میں سے ایک کا سبب بن گئے جس کا بھارت کو سامنا ہے۔

شرما نے یہ کلمات دائیں بازو کے ٹیلی ویژن چینل پر ہونے والی بحث کے دوران ادا کیے جن کے نتیجے میں بعض بھارتی ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راجستھان پولیس کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ قتل کی ویڈیو ’اتنی ہولناک ہے کہ دیکھی نہیں جا سکتی۔‘

انہوں نے نیوز چینلز پر زور دیا کہ ’وہ یہ کلپ مت دکھائیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ’واقعے کو افسوسناک اور شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک اور ریاست میں حالات کشیدہ ہیں۔‘

گہلوت کے بقول: ’وزیر اعظم اور امت شاہ جی قوم سے خطاب کیوں نہیں کرتے؟ لوگوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ وزیراعظم کو لوگوں سے خطاب کرنا اور کہنا چاہیے کہ اس قسم کا تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا اور وہ لوگوں سے امن کی اپیل کریں۔‘ گہلوت حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے رکن ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی حکومت ’واقعے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔‘

’یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قومی اور بین الاقوامی سطح پر شدت پسند عناصر کے ساتھ رابطہ نہ ہو۔‘

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق مقبول درزی نے پولیس کی حفاظت مانگی تھی اور دعویٰ کیا کہ تھا انہیں قتل کی دھمکیاں ملی ہیں۔

موت کے محض تین ہفتے قبل انہیں اپنے خلاف مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی شکایت پر گرفتار کرنے کے بعد اگلے روز رہا کر دیا گیا تھا۔

اعلیٰ پولیس عہدے دار ہواسنگھ گھماریا نے اخبار کو بتایا کہ ’(انہیں) 10 جون کو گرفتار کیا گیا اور اگلے روز عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پھر 15 جون کو انہوں نے تحریری طور پر شکایت کہ انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی اور انہوں نے پولیس کی حفاظت مانگی۔ متعلقہ ایس ایچ او نے ان لوگوں کو بلایا جو مبینہ طور پر دھمکیاں دے رہے تھے۔‘

حملہ جسے ’طالبان کے انداز میں قتل‘ کہا جا رہا ہے نے غم وغصے کی فضا پیدا کر دی ہے۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا: ’مجھے اودے پور میں ہولناک قتل سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ مذہب کے نام پر ’حیوانیت‘ برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ہم سب کو مل کو نفرت کو شکست دینی ہوگی۔‘

ممتاز قانون ساز اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ ’میں اودے پور میں ہولناک قتل کی مذمت کرتا ہوں۔ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہماری جماعت کا مستقل مؤقف ہے کہ ایسے تشدد کی مخالفت کی جائے۔‘

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابینرجی نے کہا: ’جو کچھ اودے پور میں ہوا میں اس کی سختی سے مذمت کرتی ہوں۔ میں سب زور دیتی ہوں کہ امن و امان برقرار رکھا جائے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا