انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے 20 سال، یہ عدالت کیا کرتی ہے؟

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ روم سٹیچوٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی جو یکم جولائی 2002 کو نافذ  العمل ہوا۔ اگرچہ بین الاقوامی برادری کے 120  ممالک نے اس کی تائید کی لیکن اس کا اقوام متحدہ سے کوئی تعلق نہیں۔

31 مارچ 2021 کو لی گئی تصویر میں عالمی فوجداری عدالت کی عمارت کا منظر (روئٹرز)

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (عالمی فوجداری عدالت یا آئی سی سی) کے قیام کو آج پورے 20 سال ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ عدالت ہے کیا؟ یہ کس قانون کے تحت قائم کی گئی؟

کیا جوہری طور پر اس کا اقوام متحدہ سے تعلق ہے یایہ الگ سے کوئی ادارہ ہے؟ اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف کے ہوتے ہوئے اس کی افادیت اور معنویت کیا ہے؟ اس کا دائرہ سماعت کیا ہے؟ یہ کس نوعیت کے مقدمات سن سکتی ہے؟ اس کے اختیارات کی حدوودو قیود کیا ہیں؟ اس عدالت کی قوت نافذہ کیا ہے؟ دنیا میں اسے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی؟ دنیا کی بڑی قوتیں اس کی افادیت کی قائل کیوں نہیں ہو سکیں؟

پاکستان اس کا رکن کیوں نہیں بنا؟ کیا اس کا رکن بننے سے کشمیر میں پاکستان کو کسی درجے میں کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو دو عشروں کے اس سفر میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے ہم سفر ہیں۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ روم سٹیچوٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی جو یکم جولائی 2002 کو نافذ العمل ہوا۔  اگرچہ بین الاقوامی برادری کے 120 ممالک نے اس کی تائید کی لیکن اس کا اقوام متحدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ الگ سے ایک ادارہ ہے جس کی روز اول سے ہی مخالفت کرنے والوں میں چند دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کے دو مستقل ممبران یعنی چین اور امریکہ شامل ہیں۔

اسی طرح سلامتی کونسل کا تیسرا اہم مستقل رکن بھی اس کا کبھی حصہ نہیں رہا اور اب تو بات واضح مخالفت تک آ چکی ہے کیونکہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے 2008 میں ہونے والی روس اور جارجیا کی لڑائی میں ملوث تین روسی اہلکاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں، جو ظاہر ہے روس کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

ایک عدالت جو بین الاقوامی سطح پر جرائم کی سرکوبی کے لیے بنائی گئی، اسے اگر سلامتی کونسل کے تین مستقل اراکین کی تائید حاصل نہ ہو تو اس کی فعالیت ہی نہیں، اس کی افادیت پر بھی بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

روم سٹیچوٹ کے آرٹیکل دو میں اہتمام سے اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ عدالت اقوام متحدہ سے الگ چیز ہے اور اقوام متحدہ سے اس کے تعلق کی کیا شکل ہو گی، اس آرٹیکل کے مطابق اس کا تعین ہونا بھی ابھی باقی ہے۔ البتہ آرٹیکل دو میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اس تعلق کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہو گا اس کا پروسیجر کیا ہو گا۔

سفارت کاری کی دنیا میں جس چیز کو Intended ambiguity  کہا جاتا ہے، اس آرٹیکل میں یہ تصور بہت نمایاں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ’دانستہ ابہام‘ نے خود انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی فعالیت بلکہ وجود تک کے بارے میں سنجیدہ مباحث کو جنم دے دیا ہے جس پر ہم  انہی سطور میں آگے چل کر بات کریں ہے۔

اس عدالت کے اختیار سماعت کا تعین تین مختلف حوالوں سے کیا ہے۔ پہلا حوالہ جرائم کی نوعیت کا ہے۔ دوسرے کا تعلق مدت سے ہے اور تیسرے اختیار کا تعلق اس بات سے ہے کہ عدالت کی جورسڈکشن دنیا کے کن کن ممالک پر ہو گی۔

جہاں تک جرائم کا تعلق ہے، تو روم سٹیچوٹ کے آرٹیکل پانچ میں طے کر دیا گیا کہ اس عدالت کا دائرہ سماعت انتہائی سنگین جرائم تک محدود ہو گا اور اسی آرٹیکل میں وہ چار جرائم بھی بیان کر دیے گئے ہیں۔ آرٹیکل پانچ کی زبان قطعی ہے گویا اس  دائرہ سماعت کو  ’جورسپروڈنس کے اطلاق‘ سے وسعت نہیں دی جا سکتی بلکہ یہ انہی چار جرائم تک محدود رہے گا۔ یہ چار جرائم کون سے ہیں؟ آرٹیکل پانچ کے مطابق یہ جرائم درج ذیل ہیں:

1۔ نسل کشی

2۔ انسانیت کے خلاف جرائم

3۔ جنگی جرائم

4۔ جارحیت کا جرم

بظاہر اس فہرست میں ابہام بھی ہے، اور تکرار بھی لیکن روم سٹیچوٹ نے اگلے آرٹیکلز میں اس کو واضح کر دیا ہے۔ آرٹیکل چھ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ نسل کشی کیا ہو گی اور کون کون سے جرائم نسل کشی میں شمار کیے جائیں گے۔ آرٹیکل سات میں تفصیلاً درج ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا مطلب کیا ہو گا۔

اسی طرح آرٹیکل آٹھ میں جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ جارحیت کے جرم کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ (تاہم اس کے باوجود بہت سارے پیچیدہ قانونی سوالات اور ابہام موجود ہیں اور ان کا ذکر آگے آئے گا)۔

عدالت کے اختیار سماعت میں مدت کا تعین بھی کر دیا گیا ہے اور روم سٹیچوٹ کے آرٹیکل 11 کے مطابق عدالت صرف ان مقدمات کا حق سماعت رکھتی ہے جو روم سٹیچوٹ کے نافذ العمل ہونے کے بعد کیے گئے ہوں گے۔

گویا یہ عدالت یکم جولائی 2002 سے پہلے کے کسی جرم پر کوئی کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اسی آرٹیکل میں سب کلاز دو میں اس اختیار کو مزید محدود کر دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ریاست بعد میں اس کا حصہ بنتی ہے تو اس پر عدالت کا اختیار سماعت روم سٹیچوٹ کے نافذ العمل ہونے کے دن سے نہیں بلکہ اس کی شمولیت کے دن سے شروع ہو گا۔

عدالت کے اختیار سماعت کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس کی عملداری پوری دنیا پر نہیں ہو گی۔ آرٹیکل 12 کے مطابق اس کی عملداری صرف ان ممالک پر ہو گی جو اسے قبول کر چکے ہوں۔  جنہوں نے اسے قبول نہیں کیا ان کے معاملات میں عدالت کو کوئی حق سماعت نہیں ہو گا۔ یہ کہ ایسا کوئی ملک کسی خاص معاملے میں اس حق سماعت کو خود تسلیم کر لے۔ عدالت کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی ملک کو مجبور کر کے اپنے دائرہ سماعت میں لائے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل 13میں ایک نیا اختیار سماعت بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت معاملہ اس عدالت کو بھیجے تو یہ عدالت اس کی بھی سماعت کرے گی چاہے وہ معاملہ اس کے دائرہ سماعت میں آتا ہو یا نہ آتا ہو۔

اب یہاں پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کی نوعیت قانونی بھی ہے اور عملی بھی۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے قوانین اور اس کے عدالتی میکنزم کے ہوتے ہوئے اس عدالت کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر ضرورت تھی تو پھر اپنے خوود مختار قانونی اور انتظامی ڈھانچے کے ساتھ کیوں نہیں بنائی گئی؟

جنگی جرائم سے نمٹنے کے لیے اور انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے اور ان کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کے لیے جب اقوام متحدہ کا پورا نظام موجود ہے تو الگ سے اس عدالت کے قیام کی افادیت کیا ہے؟

اسی طرح جارحیت کو دیکھنے کے لیے اقوام متحدہ کا Just War  کا پورا ایک نظام موجود ہے، جو بتاتا ہے کہ کوئی ملک جارحیت کرے گا تو سلامتی کونسل کے پاس کیا کیا اختیار ہو گا اور وہ پابندیوں سے لے کر عملی کارروائی تک کون کون سے آپشن استعمال کر سکے گی۔

سوال یہ ہے کہ ایسے میں سلامتی کونسل باب ہفتم کے تحت انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے کیوں رجوع کرے گی؟

سلامتی کونسل کے پاس تو قوت نافذہ موجود ہے، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی قوت نافذہ کہاں ہے؟

جنگی جرائم میں ’ایٹمی اسلحے کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟

جب عدالت کا حق سماعت صرف ان ممالک تک محدود ہے جنہوں نے اس عدالت کو تسلیم کیا ہے تو روس جارجیا جنگ کے معاملے میں روسی اہلکاروں کے وارنٹ کیسے جاری کر دیے گئے جب کہ روس اس  حق سماعت کو تسلیم نہیں کرتا؟

یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ کس ملک کے باشندوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور کس ملک کے جرائم سے چشم پوشی کی جائے گی؟ اس کا کوئی واضح میکنزم ہے یا یہ فیصلے بھی مبہم طریقے سے ہوں ے اور سیاسی مفادات غالب رہیں گے؟

اس طرح  کے بہت سارے سوالات ہیں جن پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو غور کرنا چاہیے تا کہ اس کی فعالیت اور دائرہ کار بڑھ سکے۔

آخر میں اس سوال کی طرف آئیے کہ اگر پاکستان اس عدالت کو تسلیم کر لے تو کیا مسئلہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور جنگی جرائم کے حوالے سے یہ سودمند ہو سکتی ہے۔

بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ بھارت نے بھی اسے تسلیم نہیں کر رکھا اور روم سٹیچوٹ کے مطابق جو ملک اس عدالت کو تسلیم نہ کرے وہ اس کے دائرہ سماعت سے باہر ہوتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا