ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے ایک مصروف مال میں اتوار کو ایک شخص نے فائرنگ کرکے تین افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے 22 سالہ ڈینش نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا، لیکن اس کے محرکات واضح نہیں ہوسکے۔
حملہ آور کے بارے میں ابتدائی طور پر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس نے اکیلے ہی کارروائی کی تھی۔
کوپن ہیگن پولیس کے سربراہ سورین تھامسن نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’وہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے، جسے ہم خاص طور پر جانتے ہیں۔‘
فروری 2015 کے بعد ڈنمارک میں فائرنگ کا یہ پہلا غیر معمولی واقعہ ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق نوجوان، جو ایک بڑی رائفل سے لیس تھا، کو پولیس نے شہر کے مرکز اور کوپن ہیگن ہوائی اڈے کے درمیان واقع بڑے فیلڈز شاپنگ مال میں پہنچنے کے فوراً بعد پرامن طریقے سے گرفتار کر لیا تھا۔
تھامسن نے کہا: ’تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہیں، جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔‘
ہلاک ہونے والے افراد میں سے ایک کی عمر 40 سال تھی جبکہ دو نوجوانوں کی عمریں نہیں بتائی گئیں۔
گرفتاری کی فوٹیج میں ملزم کو دیکھا جاسکتا ہے، جس نے ڈی این اے شواہد کو محفوظ رکھنے کے لیے سفید جمپ سوٹ پہنا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں
سوشل میڈیا پر اس واقعے کے پیچھے نسل پرستی کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں تاہم پولیس کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے کہا: ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے پاس اس وقت کوئی ایسے شواہد موجود ہیں، جو اس بات کی تائید کرتے ہوں۔‘
تاہم پولیس نے تصدیق کی کہ وہ آن لائن پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز کی چھان بین کر رہے ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم اپنی رائفل سے اپنے سر کا نشانہ لے رہا ہے۔
جائے وقوعہ سے پوسٹ کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو لے کر عمارت سے بھاگ رہے ہیں، جبکہ لوگوں کو سٹریچر پر ڈال کر ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔
عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
عینی شاہدین نے بتایا کہ کس طرح حملہ آور نے لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ اس کا ہتھیار جعلی ہے، تاکہ وہ اس کے قریب آسکیں۔
ایک گواہ نے سرکاری ٹیلی ویژن ڈی آر کو بتایا: ’وہ کافی حد تک نفسیاتی تھا کہ جا کر لوگوں کو نشانہ بنا سکتا تھا، لیکن وہ بھاگ نہیں رہا تھا۔‘
دیگر عینی شاہدین نے ڈنمارک کے میڈیا کو بتایا کہ جب گولیاں چلیں تو انہوں نے 100 سے زائد لوگوں کو مال سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔
ایک عینی شاہد ازابیلا نے پبلک براڈکاسٹر ڈی آر کو بتایا: ’ہم نے اچانک گولیوں کی آوازیں سنیں۔ میں نے 10 گولیوں کی آواز سنی اور ہم ٹوائلٹ میں پناہ لینے کے لیے بھاگے۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ دو گھنٹے تک مال میں چھپی رہیں۔
دیگر عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور کا قد تقریباً پانچ فٹ نو انچ تھا، جس کے پاس شکاری رائفل تھی۔
برطانوی گلوکار کا کنسرٹ منسوخ
فائرنگ کا واقعہ شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب پیش آیا تھا، جس سے مال میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس واقعے کے بعد قریبی رائل ایرینا میں برطانوی گلوکار ہیری سٹائلز کنسرٹ کے لیے موجود تھے، جسے منسوخ کر دیا گیا۔
سویڈن کے رہائشی 53 سالہ ہنس کرسچن سٹولز نے اے ایف پی کو بتایا: ’میری بیٹیوں کو ہیری سٹائلز کو دیکھنے جانا تھا۔ انہوں نے مجھے یہ بتانے کے لیے فون کیا کہ کوئی فائرنگ کر رہا ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو وہ ایک ریستوران میں تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی بیٹی کیسنڈرا نے بتایا: ’ہم نے پہلے سوچا کہ لوگ ہیری سٹائلز کو دیکھنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، پھر ہمیں سمجھ آئی کہ یہ لوگ گھبرا کر بھاگ رہے ہیں۔۔ ہم بھی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے۔‘
دوسری جانب گلوکار سٹائلز نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا: ’میں کوپن ہیگن کے لوگوں کے لیے دل شکستہ ہوں۔ میں اس شہر کو پسند کرتا ہوں۔‘
یہ حملہ اس سال ٹور ڈی فرانس سائیکلنگ مقابلوں کے کوپن ہیگن سے شروع ہونے کے دو دن بعد ہوا ہے۔
ٹور کے منتظمین نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا: ’ٹور ڈی فرانس کا پورا کارواں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ دلی تعزیت کرتا ہے۔‘
تعزیتی پیغامات
واقعے کے بعد وزیراعظم میٹے فریڈریکسن نے ایک بیان میں کہا: ’ڈنمارک کو اتوار کی رات ایک ظالمانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ متعدد ہلاک ہو گئے اور اس سے بھی زیادہ زخمی ہوئے۔ بے گناہ خاندان خریداری کر رہے تھے یا باہر کھانا کھا رہے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمارا خوبصورت اور اتنا محفوظ دارالحکومت ایک سیکنڈ میں بدل گیا تھا۔‘
ڈنمارک کے شاہی خاندان نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ہمدردی متاثرین، ان کے لواحقین اور اس سانحے سے متاثر ہونے والے تمام افراد کے ساتھ ہے۔