امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کو ریاست ٹیکسس میں یووالڈی شہر کا دورہ کیا، جہاں گذشتہ ہفتے ایک مسلح حملہ آور نے سکول میں شوٹنگ کرکے 19 بچوں سمیت 21 افراد کو قتل کردیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن نے سیکرڈ ہارٹ چرچ میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ دعائیہ سروس میں شرکت کی۔
جب وہ چرچ سے باہر آئے تو سڑک پر کھڑے ہجوم نے نعرے لگائے کہ وہ امریکہ میں ماس شوٹنگ (بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات) کے سلسلے کے خلاف ’کچھ کریں‘، جس پر بائیڈن نے کہا کہ ’ہم کریں گے‘۔
چرچ سروس کے بعد صدر بائیڈن اور ان کی اہلیہ ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے نجی ملاقات کے لیے گئے جس کے بعد انہوں نے جائے وقوعہ پر پہنچنے والے اہلکاروں سے بھی ملاقات کی۔
یہ دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں بائیڈن کا دوسرا ایسا دورہ تھا۔ اس سے پہلے وہ نیویارک کے شہر بفیلو بھی گئے تھے اور متاثرہ خاندانوں سے ملے تھے جہاں 14 مئی کو ایک نسل پرستانہ حملے میں ایک 18 سالیہ سفید فام نوجوان نے سپر مارکیٹ میں فائرنگ کرکے 10 سیاہ فام افراد کو مار ڈالا تھا۔
صدر اور جل بائیڈن نے روب ایلیمنٹری سکول میں ایک عارضی یادگار کا بھی دورہ کیا اور پھول رکھے، جہاں گذشتہ ہفتے 18 سالہ سلواڈور راموس، اے آر 15 ٹائپ کی نیم خودکار رائفل لیے داخل ہوئے اور طلبہ اور اساتذہ کو نشانہ بنایا۔
بائیڈن کی گاڑی سکول پہنچی تو وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا تاہم کچھ نے ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا جب ٹیکسس کے گورنر گریگ ایبٹ آئے، جو ری پبلکن پارٹی کے رکن ہیں اور اسلحے کی خریداری پر نئی پابندیوں کے سخت خلاف ہیں۔
ان کے آنے پر ہجوم میں سے ایک شخص نے چلا کر کہا: ’ہمیں تبدیلیاں چاہییں۔‘
چرچ کے آرچ بشپ گوسٹاو گارسیا سلر نے کہا: ’ہمارے دل ٹوٹ گئے ہیں۔‘
73 سالہ روبرٹ رولز نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ صدر بائیڈن شہر آئے مگر انہیں ایسے قانون منظور کرنے کی ضرورت ہے جس سے اسلحے کی خریداری پر سخت پابندیاں ہوں۔
پولیس کی کارروائی پر نظرثانی
حملے کے دوران مقامی پولیس کے ردعمل پر بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
شہریوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے حملہ آور کو ایک گھنٹے تک کلاس روم میں رہنے دیا اور خود باہر انتظار کرتے رہے جبکہ کلاس روم میں موجود طلبہ پولیس کو مدد کے لیے کالیں کرتے رہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اتوار کو اعلان کیا کہ یووالڈی کے میئر ڈون مک لافلن کی درخواست پر مقامی قانون نافذ کرنے والوں کے ردعمل پر نظرثانی کی جائے گی۔
یووالڈی پولیس کے حوالے سے سابق پاسٹر اور ماری جانے والی ایک بچی کے پردادا جولین مورینو نے کہا: ’میں ان کے لیے برا محسوس کرتا ہوں کیونکہ انہیں زندگی بھر اس غلطی کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا کہ وہ بس کھڑے ہو کر دیکھتے رہے۔‘
بچ جانے والے افراد گذشتہ منگل کے حملے کی حولناک داستان سنا رہے ہیں اور پولیس کے ردعمل پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیکسس حملہ آور کا پیغام: ’بچوں کو ہوشیار رہنا چاہیے‘
اے ایف پی کے مطابق چوتھی جماعت کے 10 سالہ سیموئل سلیناز اپنے کلاس روم میں تھے جب حملہ آور داخل ہوا اور کہا: ’تم سب مرنے والے ہو۔‘
سیموئل سلیناز نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اس نے بس فائرنگ شروع کردی۔‘
ٹیکسس حکام جمعے کو اعتراف کر چکے ہیں کہ اس دن سکول کوریڈور میں 19 پولیس اہلکار ایک گھنٹے تک کلاس روم کے باہر رہے اور آخر کار دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ حکام کے مطابق پولیس اہلکاروں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ حملہ آور نے لوگوں کو مارنا ختم کر دیا ہے اور اب اندر ہی بند ہے۔
زندہ بچ جانے والے بچے اپنے تجربات بتا رہے ہیں کہ کیسے وہ 911 پر کالیں کرتے ہوئے اور اپنی آواز کم رکھتے ہوئے پولیس سے مدد مانگتے رہے، جبکہ پولیس اہلکار باہر ہی کھڑے تھے۔
کچھ نے مردہ ہونے کی ایکٹنگ کی تاکہ حملہ آور ان کی طرف متوجہ نہ ہو جائے۔
11 سالہ میا سریلو نے اپنے مردہ دوست کا خون خود پر لگا لیا تاکہ وہ بھی مردہ ہی لگیں۔
سیموئل سلیناز نے بتایا کہ انہیں لگا کہ سلواڈور راموس نے ان پر گولی چلائی مگر گولی ایک کرسی کو لگی اور شارپنل ان کی ٹانگ میں لگا۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے مردہ ہونے کی ایکٹنگ کی تاکہ وہ مجھے گولی نہ مارے۔‘
ایک اور طالب علم ڈینیئل نے بتایا کہ انہوں نے حملہ آور کو شیشے سے ٹیچر کو گولی مارتے دیکھا۔
انہوں نے واشنٹگن پوسٹ کو بتایا کہ ٹیچر زخمی ہونے کے باوجود بچوں کو پرسکون رہنے اور بالکل نہ ہلنے کا کہتی رہیں۔
یہ واقعہ امریکہ میں 10 سالوں میں سب سے مہلک سکول حملہ ہے۔ اس سے قبل 2012 میں کنیٹیکٹ میں سینڈی ہوک سکول میں فائرنگ سے 20 طلبہ اور سکول عملے کے چھ افراد مارے گئے تھے۔ تاہم فائرنگ کے اس بڑھتے ہوئے سلسلے اور اسلحے کی نجی خریداری کے بڑھتے رجحان کے باوجود کانگریس اسلحے کی ملکیت پر نئی پالیسیاں منظور کرنے میں ناکام رہی ہے اور یووالڈی حملے سے امریکہ میں گن کنٹرول پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔
مزید پڑھیے: آزادی یا خوف: امریکہ کے مہلک گن کلچر کی بنیاد کیا ہے؟
بائیڈن، جو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور بار بار امریکہ میں اسلحے کے حوالے سے قوانین میں اصلاحات پر زور دے چکے ہیں مگر وہ بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات روکنے اور ری پبلکن پارٹی اراکین کو سخت گن کنٹرول پالیسیوں پر راضی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس بات کی توقع نہیں کہ بائیڈن سخت پالیسی متعارف کروائیں یا ایگزیکٹو ایکشن لیں تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر کرس مرفی کے مطابق دونوں پارٹیوں کے اراکین کے درمیان ’سنجیدہ مذاکرات‘ جاری ہیں۔‘
ری پبلکن پارٹی کے مشہور اراکین جیسے ٹیکسس سینیٹر ٹیڈ کروز، گورنر گریگ ایبٹ اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسلحے کے حوالے سے پابندیوں کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اس کی بجائے ان کا کہنا ہے کہ سکولوں کی سکیورٹی بڑھائی جائے اور ذہنی صحت پر زیادہ کام کیا جائے۔
یووالڈی کے سکول میں فائرنگ کرنے والا سلواڈور راموس، جس نے ہائی سکول ختم کیے بغیر چھوڑ دیا تھا، کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ذہنی بیماری کی شکایت، تاہم انہوں نے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز پیغام ضرور پوسٹ کیے تھے۔
ٹیکسس ٹریبیون نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ حملہ آور نے اپنی 18 ویں سالگرہ کے بعد دو ہفتے قبل ہی ایک وفاقی لائسنس شدہ سٹور سے اسلحہ خریدا تھا۔