ایران کا یورینیئم افزودگی میں اضافہ پریشان کن ہے: امریکہ

امریکہ کے ایران کے لیے خصوصی ایلچی کا کہنا ہے ایران نے دوحہ مذاکرات میں اضافی مطالبے کیے اور اس نے یورینیئم افزودگی کی سرگرمیوں میں ’پریشان کن پیش رفت کی ہے۔‘

25 مئی 2022 کو لی گئی تصویر میں ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی روبرٹ میلی واشنگٹن میں سینیٹ کی خارجہ امور کیمیٹی میں اپنی پیشی سے قبل (اے ایف پی)

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی روبرٹ میلی نے کہا ہے کہ دوحہ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں ایران نے ایسے ’مطالبے شامل کیے جن کا اس کے جوہری پروگرام سے تعلق نہیں‘ اور یورینیئم افزودگی میں ’پریشان کن پیش رفت‘ کی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روبرٹ میلی کا منگل کو کہنا تھا کہ ’مذاکرات کے میز پر ایک ٹائم فریم موجود ہے جس کے تحت ایران جوہری معاہدے  کی دوبارہ تعمیل میں آ سکتا ہے اور واشنگٹن پابندیوں میں نرمی کر سکتا ہے۔‘

مغربی طاقتیں ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں میں ہیں جس سے 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا اور ایران پر پابندیاں لگا دیں تھیں۔

ویانا میں مذاکرات کے کئی اداور بغیر کسی اہم پیش رفت کے ختم ہو چکے ہیں اور اسی طرح گذشتہ ہفتے امریکہ اور ایران کے درمیان دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات بھی کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے۔

میلی کا کہنا ہے کہ ’ایران نے ان مذاکرات میں نئے مطالبے شامل کیے۔‘

نیشل پبلک ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: ’انہوں (ایران) نے دوحہ میں کچھ مطالبے شامل کیے جو میرے خیال میں اس معاملے کو دیکھنے والا کوئی بھی سمجھ جائے گا کہ ان کا جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے چیزیں جو ماضی میں چاہتے رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ان مطالبات میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں امریکہ اور یورپی ممالک کہہ چکے ہیں کہ یہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہو سکتے۔‘

میلی نے کہا: ’اب جس بات چیت کی واقعی ضرورت ہے وہ ہمارے اور ایران کے درمیان نہیں، حالانکہ ہم اس کے لیے تیار ہیں، بلکہ ایران اور خود اس سے درمیان ہے۔ انہیں اس نتیجے تک پہنچنے کی ضرورت ہے کہ وہ جوہری معاہدے کی تعمیل میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسپ بوریل سے گفگتو کے بعد ٹوئٹر پر ایرانی وزیرخارجہ حسين امير عبد اللهيان نے کہا: ’معاہدہ صرف باہمی مفاہمت اور مفادات کی بنیاد پر ممکن ہے۔ ہم ایک مضبوط اور پائیدار معاہدے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایک معاہدہ چاہتا ہے یا اپنے یکطرفہ مطالبات سے جڑے رہنا چاہتا ہے۔‘

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’فی الحال ایران کے ساتھ مزید بات چیت کے ادوار کا کوئی منصوبہ نہیں۔‘

ان کے بقول ’ایران نے حالیہ ہفتوں میں اضافی مطالبات شامل کیے ہیں جو 2015 کے جوہری معاہدے کی حدود سے باہر ہیں۔‘

صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جوہری معاہدے کی تنگ حدود سے باہر جانے والے کسی بھی مطالبے کو متعارف کروانا عدم سنجیدگی ظاہر کرتا ہے اور عزم کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، ٹیم نے ایک بار پھر یہی دوحہ میں دیکھا۔‘

2015 میں طے پانے والا معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام میں کمی لائی تھی اور یورینیئم کی افزودگی کو محدود کیا، تاہم امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران معاہدے کی تعمیل چھوڑ دی تھی۔

مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنایا چاہتا ہے تاہم ایران نے اس کی تردید کی ہے اور اس کا موقف یہی رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور سول استعمال کے لیے ہے۔

ایران کے لیے امریکی ایلچی روبرٹ میلی کے مطابق ایران اتنا فیسل مواد جمع کرنے کے قریب ہے جو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہو، تاہم ایسا لگتا نہیں کہ اس نے اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کو بحال کیا ہے۔

انٹرویو میں میلی نے کہا: ’ظاہر ہے ہم اور ہمارے شراکت دار افزودگی میں پیش رفت سے پریشان ہیں۔‘

میلی نے کہا کہ ’امریکہ ایران میں قید امرییکیوں کی رہائی کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمیں امید ہے کہ جوہری مذاکرات میں جو بھی ہو، ہم اس مسئلے کا حل  کر سکیں گے کیونکہ یہ زور ہمارے ذہنوں میں ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا