جوہری سرگرمیاں: مغربی ممالک کی ایران کے خلاف مذمتی تحریک

بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سامنے پیش کی گئی تحریک میں ایران پر جوہری پروگرام پر پیش رفت بند کرنے پر زور، ووٹنگ بدھ یا جمعرات کو ہونے کا امکان ہے۔

ایرانی صدر کے دفتر سے 10 اپریل 2021 کو جاری کی جانے والی تصویر میں ایک انجینیئر کو نطنز یورینیم افزودگی پلانٹ میں کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: ایرانی صدارتی دفتر / اے ایف پی)

امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے (آئی اے ای اے) کو ایک تحریک پیش کی ہے جس میں ایجنسی کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ایران کی مذمت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ایک یورپی سفارت کار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکہ اور تین یورپی ممالک نے ایران کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر مذمتی تحریک پیر اور منگل کی درمیانی شب جمع کروائی۔ کئی ذرائع نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

سفارت کاروں کے مطابق اس تحریک پر ووٹنگ بدھ یا جمعرات کو ہونے کا امکان ہے۔

اے ایف پی کے مطابق اس تحریک میں ایران پر زور دیا گیا کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔

رواں سال مارچ میں ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت کے بعد یہ تحریک مغرب کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو ظاہر کر رہی ہے۔

آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے سامنے ایک مشترکہ بیان میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کہا کہ ’وہ ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت بند کرے اور مجوزہ معاہدے پر فوری طور پر اتفاق کرے۔‘

آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس رواں ہفتے ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیے: جوہری مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں ہیں: امریکہ اور ایران

مغربی ممالک کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران کا جوہری پروگرام اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے افزودہ یورینیم ذخیرہ کرنے کا کوئی ’معتبر جواز‘ نہیں ہے۔

ایران نے ہمیشہ جوہری ہتھیار بنانے کی خواہش سے انکار کیا ہے۔

آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تہران کے پاس اب 43.1 کلوگرام (95 پاؤنڈ) 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر ایران اپنا پروگرام جاری رکھتا ہے تو اسے جوہری ہتھیاروں کے لیے ضروری مواد حاصل کرنے میں ’صرف چند ہفتوں کی ضرورت‘ ہوگی۔

آئی اے ای اے نے گذشتہ ماہ کے اختتام پر اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افزودہ یورینیم کے ایسے تین مقامات پر پائے جانے والے نشانات کے بارے میں سوالات کے واضح جواب نہیں ہیں، جن کے بارے میں ایران نے کبھی نہیں بتایا کہ یہاں جوہری سرگرمیاں کی گئی ہیں۔

رافیل گروسی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ’ان معاملات کو ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔‘

دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پیر کو سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ایران اس قرارداد کو مسترد کر دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تحریک سے ’آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارے تعاون کی عمومی سمت اور ہمارے مذاکرات دونوں پر منفی اثر پڑے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب: ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے پر خیرمقدم

چین اور روس، جو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ایران جوہری معاہدے میں شامل ہیں، نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی قرارداد مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر میخائل الیانوف نے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا: ’روس ایسی کسی قرارداد میں ساتھ نہیں دے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قرارداد کی وجہ سے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں رکاوٹ کا امکان نہیں ہے۔

جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات اپریل 2021 میں شروع ہوئے تھے جس کا مقصد امریکہ کو معاہدے میں واپس لانا اور پابندیوں کے خاتمے کے عوض ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔

2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا۔

تاہم موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی عندیہ دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے جوہری معاہدے میں امریکہ کو واپس حصہ دار بنائیں گے اور دوسرے اہم مسائل پر بات چیت کریں گے۔  

دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ اور سلامتی پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے ہفتے کو کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے معاہدے پر عمل درآمد کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔

بوریل نے اپنی ٹویٹس میں کہا کہ انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ امیر حسین عبداللہیان کے ساتھ ایک بار پھر بات کی ہے۔ ان کے مطابق جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مزید کوشش کرنے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔

ادھر ویانا میں بین الاقوامی تنظیموں کے لیے روسی مندوب میخائل الیانوف نے کہا ہے کہ اگر عالمی توانائی ایجنسی نے مغربی ممالک کی ایران کے خلاف پیش کی قراردار منظور کی تو ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس صورت میں مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا