بورس جانسن: استعفے کے بعد جانشین کی دوڑ میں تیزی

برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کے وزرا کے غیرمعمولی استعفوں کے ایک دن بعد جب سکینڈل سے متاثرہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے طویل دوڑ کا آغاز بھی ہو گیا۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سات جولائی 2022 کو لندن میں اپنے دفتر کے باہر میڈیا کو بیان دے رہے ہیں جن میں انہوں نے اپنے استعفے کو اعلان کیا (اے ایف پی)

برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کے وزرا کے غیرمعمولی استعفوں کے ایک دن بعد جب سکینڈل سے متاثرہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے طویل دوڑ کا آغاز بھی ہو گیا۔

بورس جانسن نے جمعرات کو ٹوری لیڈر کی حیثیت سے یہ تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دیا تھا کہ ’کنزرویٹو پارٹی کے پارلیمانی ارکان کی واضح خواہش ہے کہ پارٹی کا ایک نیا لیڈر اور ایک نیا وزیراعظم ہونا چاہیے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نئی قیادت کا انتخاب آنے والے مہینوں میں متوقع ہے اور فاتح اکتوبر کے شروع میں پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں جانسن کی جگہ لے گا۔

ٹوری ممبران کے یو گو سروے کے مطابق وزیر دفاع بین والیس اور سابق وزیر خزانہ رشی سونک بورس جانسن کی جگہ عہدہ سنبھالنے کے لیے ابتدائی دوڑ میں شامل تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے دا ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سونک پارٹی کے لیڈر کے عہدے کے لیے خود کو ’سنجیدہ وقت میں سنجیدہ امیدوار‘ کے طور پر پیش کریں گے۔

دا ٹائمز کے مطابق وہ خود کو ایسے شخص کے طور پر پیش کریں گے جو پارٹی کے ’برینڈ‘ کو بچا سکتے ہیں اور جنہیں معاشی بحران سے نمٹنے کا تجزبہ ہے۔

وزارت عظمیٰ کی ایک اور ممکنہ دعویدار اور وزیر خارجہ  لز ٹرس نے وطن واپسی کے لیے جی 20 اجلاس کے لیے انڈونیشیا کا دورہ مختصر کر دیا۔

ابھی تک کنزرویٹو رکن پارلیمان ٹام ٹوگینڈہاٹ پارٹی کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر اپنی مہم کا اعلان کیا ہے حالانکہ اٹارنی جنرل سویلا بریورمین اور بریگزٹ کے حامی سٹیو بیکر دونوں نے بھی اس دوڑ میں شامل ہونے کے حوالے سے اپنی دلچسپی کا اشارہ دیا ہے۔

جمعرات کو جانسن نے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک اس عہدے پر رہیں گے جب تک ان کے جانشین چارج نہیں سنبھال لیتے۔ 

لیکن ان کے فوری طور پر رخصت ہونے اور ایک قائم مقام رہنما کے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کی سربراہی کے لیے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔

پولنگ کے مطابق زیادہ تر برطانوی ان کے جلد عہدہ چھوڑنے کے حق میں ہیں۔

جانسن کے اقتدار کے تین ہنگامہ خیز سال

بورس جانسن کے ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہنگامہ خیز تین سال بریگزٹ، کرونا وبا اور جھوٹ بولنے کی ان کی ساکھ کے بارے میں تنازعوں سے بھرے رہے۔

استعفے کا اعلان کرتے ہوئے جمعرات کو 58 سالہ جانسن نے کہا تھا کہ وہ ’دنیا کی سب سے بہترین پوسٹ چھوڑنے پر افسردہ ہیں۔‘

جانسن نے کابینہ کے رخصت ہونے والے ارکان کو تبدیل کرنے کے لیے بھی کئی تقرریاں کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاؤننگ سٹریٹ کے مطابق استعفے کے اعلان کے بعد نئی کابینہ کے اجلاس سے جانسن نے اپنی وقتی حیثیت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بڑے مالی فیصلے اگلے وزیر اعظم کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔‘

رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے منگل کی شب استعفوں کا اعلان کیا جس کے بعد جانسن کی حکومت سے عہدیداروں کے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 

ان کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب جانسن نے فروری میں ایک سینیئر کنزرویٹو رکن پارلیمان کی پارلیمنٹ میں نمایاں کردار کے لیے تقرری کرنے پر معذرت کی تھی۔

کرس پنچر نے گذشتہ ہفتے ان الزمات کے بعد ڈپٹی چیف وہپ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ انہوں نے نشے میں دو افراد کو نازیبا انداز میں چھوا تھا۔

ڈاؤننگ سٹریٹ کے عہدیداروں نے کئی بار تردید کے بعد آخر کار اعتراف کیا کہ جانسن کو پنچر کے خلاف 2019 میں دیگر الزامات کے بارے میں معلوم تھا۔

بدھ کی رات تک جانسن 50 سے زیادہ حکومتی استعفوں کے سلسلے کے باوجود اقتدار میں رہنے پر اصرار کرتے رہے۔

لیکن جمعرات کی صبح ہائی پروفائل شخصیات کے استعفوں اور ٹوری ایم پیز کی جانب سے اگلے ہفتے دوسرے عدم اعتماد کی تحریک کی وارننگ نے جانسن کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

تنازعات

بورس جانسن نے 2019 میں تین سال قبل بریگزٹ کے عزم کے ساتھ فتح حاصل کی۔ لیکن بعد میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے۔

کنزرویٹوز کی لڑائی ایک ایسے وقت پھوٹ پڑی جب لاکھوں برطانوی 1950 کی دہائی کے بعد سے معیار زندگی میں بدترین کمی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور یوکرین میں جنگ کے باعث توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے برطانوی عوام مشکلات سے گزر ہیں ہے۔

ڈاؤننگ سٹریٹ میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں والی پارٹیوں کے سلسلے میں جانسن کی مقبولیت پہلے ہی کم ہوگئی تھی جس کے باعث وہ پولیس کو جرمانہ ادا کرنے والے پہلے وزیراعظم بننے۔

اگرچہ جانسن نے ایک کامیاب کرونا ویکسین مہم کی قیادت کی لیکن ان ہی کی حکومت نے بدترین اموات کا بھی مشاہدہ کیا۔

سماجی گروپ ’کووڈ 19 بیریویڈ فیملیز فار جسٹس‘ سے وابستہ لابی اکینولا نے کہا: ’بورس جانسن کی میراث میں لگ بھگ دو لاکھ برطانوی لوگوں کی موت بھی شامل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا