ایک رات جو 45 سال سے جاری ہے!

بات ہو رہی ہے 77 کے سانحے کی جو ویسے تو اپنی باقیات اور خصوصیات کی بدولت کبھی نہیں بھولتا، لیکن جولائی میں شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔

پانچ جولائی 1977 کی اس تصویر میں اس وقت کے پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق ریڈیو پاکستان پر تقریر کر رہے ہیں۔ ضیا الحق  نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جولائی کا مہینہ پاکستان میں کئی حوالوں سے اہم ہے۔ موسمی حوالے سے مئی، جون کی کڑاکے دار لُو کے بعد ساون اور مون سون کی آمد کا انتظار شروع ہوتا ہے۔

اقتصادی پس منظر میں جائیں تو پہلی جولائی سے اگلے سال 30 جون تک نیا مالی سال شروع ہو جاتا ہے، لیکن سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو 1977 کے مارشل لا سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں کیونکہ ’آپریشن فئیر پلے‘ سے شروع ہونے والی پانچ جولائی کی شبِ تاریک جو بظاہر 11 سال پہ محیط رہی لیکن اپنے اثرات کے حوالے سے 45 سال کے بعد بھی نہیں ڈھل سکی۔

یہ 45 سال یعنی پانچ کم نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ اندرونی کہانی کے طور پہ تو یہ بات 1977 کے عام انتخابات میں متحدہ حزبِ اختلاف یعنی پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس یا پاکستان قومی اتحاد) کی جانب سے دھاندلی کے الزامات سے عبارت تھی جو بعد میں احتجاجی تحریک میں بدلی تو تخت کو تختہ کر گئی۔

یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کی کہانی بھی ہے۔

یہ وہی ضیا الحق تھے جسے خود بھٹو صاحب کئی سینیئر جرنیلوں کو ریٹائر کر کے اوپر لائے تھے اور جنہوں نے قوم سے پہلے خطاب میں 90 دن کے اندر نئے انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا، مگر تاریخ میں رقم ہے کہ یہ وعدہ نبھانے کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔

اس بظاہر اندرونی کہانی کو خطے میں بدلتے ہوئے حالات کی داستان سے الگ کر کے سمجھنا یا آگے بڑھانا ممکن نہیں۔ یہ وہی بدلے ہوئے حالات تھے، جس کا بہت بڑا خمیازہ پاکستان نے کئی دہائیوں تک لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی مہمان داری کرتے ہوئے اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کے نقصانات اٹھاتے ہوئے بھگتا ہے۔

خطے میں آگے چل کر کیا تبدیلیاں آنے والی تھیں انہیں بھٹو نے سزائے موت کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھ دیا تھا کہ ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ تو کیا ہوگا بلکہ کیا کیا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد افغان مجاہدین کی اٹھتی ہوئی مزاحمت میں انتہا پسندی کے جذبات کا فروغ ان کی ضرورت سہی لیکن 1970 کی دہائی میں اور بھی ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے پورے علاقے کے سیکیولر امیج کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایران کے انقلاب کا ذکر یہاں بے محل نہ ہو گا جب آیت اللہ خمینی نے شاہ رضا پہلوی کے سیکیولر ایران کو مذہبی ریاست میں بدل دیا اور عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یقیناً اس میں شاہی فیصلوں کے منفی اثرات کا بہت دخل تھا۔

جدید شاعری کے نمائندہ سمپُورن سنگھ گلزار نے کہا تھا کہ

ایک پل رات بھر نہیں گزرا

جبکہ یہاں ایک شب 45 سال سے نہیں گزر رہی، اس کا کیا کریں؟

ایسا نہیں کہ 1977 سے پہلے کچھ بھی غلط نہیں تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ دنیا کی رفتار کے ساتھ قدم ملانے کی سعی بھی جاری تھی اور سمت کا تعین بھی قدرے صحیح تھا۔

کیا یہ کہنا غلط ہے کہ اس وقت ملک کی فلیگ کیریئر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے وہ ہواباز جن کے آج لائسنس اور اڑان کی کارکردگی کے حوالے سے دنیا تذبذب کا شکار ہے، وہ اس وقت اپنی کارکردگی میں مثالی جانے جاتے تھے۔

اسلامی ملک ملیشیا جس کا شمار آج ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے وہ پاکستان کے معاشی پروگرام کو ماڈل کے طور پہ اپنانا چاہتا تھا۔ کیا ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ترقی کی رفتار کو الٹا گیئر کیوں اور کیسے لگا اور کس نے لگایا؟

بات ہو رہی تھی 77 کے سانحے کی جو ویسے تو اپنی باقیات اور خصوصیات کی بدولت کبھی نہیں بھولتا، لیکن جولائی میں شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ بین الااقوامی تناظر میں دیکھیں تو چار جولائی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قومی دن ہے۔ اس سے اگلے روز بلکہ رات کو آپریشن فیئر پلے کھیلا گیا، جس میں جیتا تو جانے کون لیکن پوری قوم کا روشن مستقبل تاریک ہو گیا۔

ہماری بستی پہ اک رات ایسی اتری تھی

ابھرتے دن کا اجالا بجھا دیا جس نے

اگر صرف قوم کے مزاج کو ہی دیکھا جائے تو عدم برداشت، شدت پسندی کے رحجانات اور میانہ روی سے دوری جیسے منفی رحجانات پرورش پا کر مضبوط ہو چکے ہیں۔ 45 سال ہو گئے ایک رات گزرنے میں نہیں آ رہی۔ یہ رات کب گزرے گی؟

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ