’جب صدر ضیا الحق نے ہمیں مفت حج پر بھیجا‘

اسلام آباد میں مقیم محمد علی عاصی نے 1984  میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج سے واپسی پر جنرل ضیا الحق کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا: 'یہ سب میری والدہ کے طفیل ہے۔‘

اسلام آباد میں مقیم 80 سالہ علی محمد عاصی کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب انہوں نے اپنی اہلیہ تحسین اختر کے ساتھ سابق صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت کی طرف سے 1984 میں اپنا پہلا حج ادا کیا تھا۔

علی محمد عاصی آرائیں ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آبا و اجداد کا تعلق جالندھر سے ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 1963 میں انہوں نے پاکستان ریلوے میں بطور ٹرین ایگزامینر نوکری شروع کی تھی۔ ڈیوٹی کا کافی عرصہ انہوں نے پشاور میں گزارا جہاں سابق صدر ضیا الحق کا بھی گھر تھا اور وہاں ان کی والدہ اور ہمشیرہ وغیرہ بھی رہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ سابق صدر ضیا الحق کی والدہ جب بھی محلے سے گزرتی تھیں تو ان کا حال احوال معلوم کرتے ہوئے جاتی تھیں۔

’ضیاالحق کی والدہ سے زیادہ شفیق، مہربان اور غریبوں سے محبت کرنے والی عورت میں نے دنیا میں نہیں دیکھی۔ یہ وہ خاتون تھیں جو میرے جیسے آدمی کو ساتھ بٹھا کر کہتی تھیں کہ علی محمد یہ بھی کھالے، یہ بھی کھالے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے سابق صدر جنرل ضیا الحق کے نام درخواست لکھی تھی، جس میں میں نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ درخواست میں نے چاچی جان کو دے دی اور کہا کہ اپنے بیٹے سے بات کریں۔ وہ زیادہ بولتی نہیں تھیں لیکن انہوں نے تسلی دی۔ جنرل ضیا الحق اپنی ماں کی بات کبھی نہیں ٹالتے تھے۔‘

 

علی محمد کے بقول: ’فروری 1984 میں جنرل ضیا الحق کا جواب آیا جس میں لکھا تھا کہ کوئی نہ کوئی وسیلہ ضرور بن جائے گا۔‘

17 اگست 1984 کو جب علی محمد پشاور میں اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے تو انہیں ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو حکومت پاکستان نے مفت حج پر بھیجنے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ہدایت کی گئی تھی کہ 22 تاریخ سے پہلے پہلے وزارت امور حج آجائیں تاکہ سارے انتظامات ہوسکیں۔

علی محمد عاصی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 20 تاریخ کو وہ اور ان کی اہلیہ وزارت حج گئے، جہاں ان کو ایم این اے ہاسٹل میں ٹھہرایا گیا۔

’یہاں میں بتاتا چلوں کہ ہماری سلیکشن سعودی ولی عہد عبداللہ کی دعوت کے نتیجے میں کی گئی تھی۔ ولی عہد عبداللہ کسی وقت پاکستان آئے تھے اور انہوں نے صدر ضیا الحق کو آفر کی تھی کہ 100 آدمی حج کے لیے میرے مہمان ہوں گے۔ ان سو لوگوں میں سے ہم بھی خوش نصیب تھے۔‘

علی محمد عاصی نے بتایا کہ اس گروپ میں مفلس ترین لوگ شامل تھے جیسے کہ ڈرائیور، چپڑاسی، مالی، گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں، جن کی تنخواہ اتنی کم ہوتی تھی کہ وہ کبھی حج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

’میں خود 12 یا 14 گریڈ کا افسر تھا۔ میں زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں حج پر جا سکوں گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سرکاری طور پر نگرانی یا انتظامات کے لیے راجہ ظفرالحق اور غلام دستگیر مرحوم جو وزیر تھے، انہیں ہمارے ساتھ بھیجا گیا تھا۔‘

’ 26 اگست کو ہمیں خصوصی طیارہ بذریعہ دمام مدینہ لے گیا۔ وہاں ہمیں مسجد نبوی کے بالکل متصل الریحاب ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جہاں سارے وی آئی پی ٹھہرا کرتے تھے۔ دو تین دن ہم نے وہاں قیام کیا اور پھر ہمیں بتایا گیا کہ آج شام کے وقت خصوصی طور پر عشاء کے وقت مسجد نبوی کھولی جائے گی اور آپ لوگ ریاض الجنۃ پر حاضری دیں گے۔‘

یاد رہے کہ ان وقتوں میں مسجد نبوی عشاء کے بعد تہجد کی اذان تک مکمل بند رہتی تھی اور زائرین کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔

’پھر حج کا وقت شروع ہوا۔ ہمیں مدینہ سے ہوائی جہاز کے ذریعے جدہ لے گئے اور ہمیں ال میریڈیئن فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا۔ آٹھ ذوالحج کی صبح ہمیں دو بسوں میں مکہ لے جایا گیا جبکہ ہمارے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں ساتھ تھیں۔ ہم حرم پہنچے اور طواف کیا اور عمرہ کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’وہاں سے ہمیں منیٰ لے گئے۔ منیٰ میں سعودی فورس کے کیمپ میں ہم مہمانوں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ وہاں ایک شام ولی عہد عبداللہ نے ہم سب کو دعوت دی تھی اور ہم سے ملاقات کی۔‘

’اس کے علاوہ ہمیں رمی یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کا وہ وقت نہیں بھولتا جب ہماری دو بسیں اس مقام کے پاس آئیں اور ہمارے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں تھیں، جو تمام لوگوں کو ہٹاتے ہوئے اور راستہ بناتے ہوئے ہمیں وہاں لے گئے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ کنکریاں مارنے کا مرحلہ بھی تکلیف دہ مسئلہ ہوسکتا ہے۔ ‘

علی محمد عاصی نے بتایا کہ حج سے واپسی پر لوگوں نے بیس بیس  لیٹر آب زم زم جمع کیا تھا۔ وہ تمام آب زم زم بعد میں ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان آیا اور ہم نے وزارت حج سے جا کر اسے لیا۔

واپسی پر انہوں نے سابق جنرل ضیاالحق کے گھر آرمی ہاؤس میں ان سے ملاقات کی اور انہیں سارا سفر نامہ سنایا۔

’وہ ہنسے اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ سب ان کے طفیل ہے۔‘

علی محمد عاصی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں 1986 میں دوبارہ حکومت پاکستان نے حج پر بھیجا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ ڈمینشیا (بھولنے کا مرض) کی مریضہ ہو گئی ہیں لیکن اپنا پہلا حج یہ جوڑا کبھی نہ بھول سکے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان