گورنر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی طرف سے چند روز قبل غلاف کعبہ یعنی 'کسوہ' کو کعبے کے سینیئر متولی صالح بن زین العابدین الشیبی کے حوالے کیا۔
پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نو ذی الحج کو غلاف کعبہ (کسوہ) تبدیل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نویں ہجری میں فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع کے موقعے پر کعبہ پر یمنی کپڑے سے تیار کیا گیا غلاف چڑھایا تھا۔
وقوف عرفہ کے بعد سال میں ایک بار غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے اور اگلے روز عیدالاضحیٰ منائی جاتی ہے۔
دوسری جانب حرمین شریفین کے نگران ادارے نے کسوہ کے نچلے حصے کو تقریباً تین میٹر اوپر اٹھا کر اس جگہ کو سوتی کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے جو چاروں اطراف سے دو میٹر کے قریب چوڑا ہے۔
اس اقدام کا مقصد غلاف کعبہ کو صاف اور محفوظ رکھنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلاف کعبہ کے رنگ میں بھی باقاعدگی سے تبدیلی آتی رہی ہے۔
سینٹر آف مکہ ہسٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز ال داحس نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'ایک بار کعبہ پر سفید، ایک بار سرخ اور ایک بار سیاہ رنگ کا غلاف چڑھایا گیا تھا۔ ہر دور میں غلاف کے رنگ کا انتخاب مالی وسائل کی بنیاد پر کیا گیا۔'
قبطی کپڑا مصر سے لایا گیا جو ایک زمانے میں غلاف کعبہ کے لیے بہترین کپڑوں میں سےایک تھا۔ یمنی کسوہ بھی عمدہ کپڑا تھا اور اس وقت بہت مشہور تھا۔
الداحس نے غلاف کعبہ کے رنگوں کی تبدیلی کے بارے میں بتایا کہ سفید سب سے زیادہ چمک دار رنگ ہے لیکن پائیدار نہیں ہے۔ اس رنگ کپڑا اکثر پھٹ جاتا ہے یا گندا ہو جاتا ہے جب کہ حاجیوں کے چھونے سے خراب ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسے سیاہ اور سفید رنگ کے بروکیڈ (کم خواب) اور شملہ کپڑے سے تبدیل کر دیا گیا ہے، جو عرب خیموں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا: 'غلاف کعبہ کے لیے کپڑے کی قسم کا انحصار مالی وسائل پر ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فواز ال داحس نے بتایا کہ غلاف کعبہ کیسا ہونا چاہیے؟ یہ خیال اس کے بعد آگے بڑھا اور اسے سرخ رنگ کے بروکیڈ اور مصر کے قبطی کپڑے سے تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 'انتاع' جو چمڑے سے تیار کیا جاتا ہے اور مختلف اقسام کے کھردرے کپڑے غلاف کعبہ کا حصہ بنائے جاتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کپڑے کی دستیابی کے ساتھ وقتاً فوقتاً غلاف کعبہ میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اموی اور عباسی حکمرانوں کے دور تک جاری رہا۔
عباسی دور کے اختتام پر سیاہ رنگ کا کسوہ حتمی قرار دیا گیا کیونکہ یہ پائیدار ہے اور مختف ملکوں سے عازمین حج کے چھونے سے خراب نہیں ہوتا۔
تاریخی کتابوں کے مطابق اسلام سے پہلے یمن کے بادشاہ طوبیٰ الحمیری وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پہلی بار کعبہ پر غلاف چڑھا۔ وہ مکہ آئے اور احترام کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔
تاریخ کعبہ میں مہارت رکھنے والے مؤرخین نے بعض واقعات بیان کیے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ الحمیری نے کعبہ پر جو غلاف چڑھایا وہ موٹا کپڑا تھا اور اسے 'کشف' کہا جاتا تھا۔ بعد میں اس کی جگہ 'معافر' نے لے لی جو اصل میں یمن کے ایک قدیم شہر سے موسوم ہے، جہاں معافر تیار کیا جاتا تھا۔
بعد ازاں شاہ یمن نے کعبہ پر 'ملعہ' کا غلاف چڑھایا جو نرم کپڑے کا ایک پارچہ ہوتا ہے جسے ربیطہ کہا جاتا تھا۔ اس بعد انہوں نے کعبہ پر سرخ دھاریوں والے یمنی کپڑے 'وساعیل' کا غلاف ڈالا۔
الحمیری کے بعد آنے والے یمنی حکمران غلاف کعبہ کے لیے چمڑا اور قبطی کپڑا استعمال کرتے تھے جبکہ اسلام سے پہلے کے دور میں بہت سے لوگ کعبے پر غلاف چڑھانا مذہبی فریضہ اور بڑے اعزاز کی بات سمجھتے تھے۔
بعض واقعات میں اشارہ ملتا ہے کہ پرانے دور میں کسوہ تہوں کی شکل میں کعبہ پر چڑھایا جاتا تھا اور جب اس کا وزن بڑھ جاتا تھا یا وہ گھس جاتا تھا تو اسے ہٹا دیا یا تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
تاریخ دانوں نے ایک واقعے کی تصدیق کی ہے کہ اسلام کے بعد پیغمبر اسلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے کعبہ پر قبطی غلاف چڑھایا جو مصر میں بننے والا سفید رنگ کا باریک کپڑا ہوتا تھا جو قبطی باشندوں کے نام سے منسوب تھا۔
تاریخی واقعات کے مطابق فتح مکہ کے موقعے پر پیغمبر اسلام نے کفار کے دور کے کسوہ کو اپنی جگہ پر رہنے دیا اور اسے تبدیل نہیں کیا حتیٰ کہ اسے خوشبودار بنانے کی کوشش میں ایک خاتون نے اسے جلا ڈالا جس کے بعد اسے یمنی کپڑے کے غلاف سے بدل دیا گیا۔
مسلمان بادشاہوں اور سلطانوں نے غلاف کعبہ اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سعودی دور میں کسوہ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔ اس وقت مصر میں قائم اسلامی حکومت صدیوں تک کسوہ بھجواتی رہی۔
سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز نے کسوہ کی تیاری کے لیے مسجدالحرام کے قریبی علاقے اجیاد میں نجی عمارت قائم کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اسلام سے پہلے سے کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دور سے لے کر موجودہ دور تک حجاز میں پہلی مخصوص عمارت تھی جہاں کسوہ کا کپڑا بنا جاتا تھا۔
اس دور میں مکہ میں کارخانہ لگایا گیا جہاں پہلی بار کسوہ تیار کیا گیا اور اس کے بعد اس کی تیاری کا کام ام الجود کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ نئی جگہ پر کپڑا تیار کرنے کی جدید ترین مشینیں لگائی گئی ہیں اور ایسا غلاف کعبہ تیار کیا جاتا ہے جو پہلے کبھی نہیں بنا۔
شاہ سلمان کے حکم پر کعبہ کسوہ فیکٹری کا نام تبدیل کرکے کعبہ کسوہ شاہ عبدالعزیز کمپلیکس رکھ دیا گیا۔
اس کمپلیکس کے مختلف حصوں میں پہلا شعبہ پانی سے نمک کو الگ کرنے کا ہے جو پانی کو صاف بنانے کا ذمہ دار ہے۔ صاف پانی ریشمی کپڑے کے معیاراور ساخت کے لیے ضروری ہے۔
اس شعبے میں زمین سے نکالے گئے پانی سے بھی نمک کو الگ کر دیا جاتا ہے تاکہ ریشم کو دھو کر رنگ کیا جا سکے۔
رنگ سازی کا عمل ریشمی دھاگوں پر موجود موم کی تہہ ہٹانے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد گرم پانی کے ٹبوں اور خاص قسم کے کیمیکلز کی مدد سے ریشم کو سیاہ اور سبز رنگ میں رنگا جاتا ہے۔
رنگ کی مطلوبہ معیار کی پائیداری یقینی بنانے کے لیے مخصوص مقدار میں رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔
کسوہ کا سوتی استر بھی دھویا جاتا ہے اورغلاف کے باہر والے حصے کے لیے ریشم کو سیاہ اور اندرونی کو سبز رنگ دیا جاتا ہے۔ ہر کسوہ کے لیے 670 کلوگرام قدرتی ریشم کی ضرورت ہوتی ہے۔
ریشم اور سوت کے دھاگوں کی مضبوطی کا معیار یقینی بنانے کے لیے ان پر مختلف قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تا کہ وہ موسمی حالات اور خراب ہونے کے عمل کا مقابلہ کر سکیں۔
چاندی کا پانی چڑھے دھاگوں پر بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے تا کہ ان کی موزونیت اور اعلیٰ معیار کو یقنی بنایا جا سکے۔
جہاں تک مشینوں پر کپڑے کی تیاری کی بات ہے تو متعلقہ کمپلیکس میں جدید جیکارڈ میشینیں لگائی گئی ہیں جو قرآنی آیات کی بنائی اور سیاہ ریشمی کپڑا تیار کرتی ہیں جس پر آیات اور دعائیں درج ہوتی ہیں۔
یہ مشینیں آیات کی چھپائی کے لیے سادہ ریشمی کپڑا اور چاندی کا دھاگہ بنانے سمیت سونے کے تاروں سے کڑھائی بھی کرتی ہیں جبکہ ریکارڈ ٹائم میں غلاف کعبہ تیار کرنے کے لیے فی میٹر 9986 دھاگے استعمال کرتی ہیں۔
چھپائی کے شعبے میں پہلی ڈرائنگ قرآنی آیات اور غلاف کعبہ کی پٹی پراسلامی ڈیزائن ہوتے ہیں۔
یہی شعبہ 'مناسج' بھی تیار کرتا ہے جو مضبوط لکڑی سے بنی دو اطراف ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان ایک سفید کپڑا تان دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد کسوہ کے بالائی حصے اور پٹی پر سادہ ریشمی کپڑا ڈال دیا جاتا ہے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے سامنے والی طرف ان پر چھپائی اورکڑھائی کی جاتی ہے۔
کارکن سفید اور پیلے رنگ میں قرآنی آیات کی چھپائی کے لیے سلک سکرین استعمال کرتے ہیں۔ سونے چاندی کے دھاگوں سے کڑھائی اور ڈیزائننگ پٹیوں کے شعبے ذمہ داری ہے۔
یہ عمل مختلف موٹائی کے سوتی دھاگوں کو دوسرے دھاگوں پر رکھ کرکیا جاتا ہے اور سیاہ رنگ کے کپڑے پر ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد کاریگر سونے کا پانی چڑھی چاندی کے تار سے بھرائی اور گنبدوں کی سلائی شروع کرتے ہیں۔
کعبے کی پٹی کے لیے کپڑے کے 16 ٹکڑے تیار کیے جاتے ہیں جن پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔
مختلف لمبائی چوڑائی کے چھ ٹکڑے پٹی کے نیچے، چار مضبوط ٹکڑے کعبے کے کونوں اور 12 پٹی کے زیریں حصے، پانچ حجر اسود کے کونے کے اوپر اور کعبے کے دروازے کی بیرونی جانب پردے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔