سائنس دانوں کا کرہ ارض کے قدیم ترین راز سے پردہ اٹھانے کا دعویٰ

محققین کا خیال ہے کہ انہوں نے زمین کی تخلیق کے پیچھے موجود عجیب و غریب حالات کا سراغ لگا لیا ہے۔

سائنس دانوں کا یہ نظریہ زمین کی غیر معمولی کیمیائی ساخت کی وضاحت بھی کرے گا (فوٹو: ای ٹی ایچ زیورخ)

سائنس دانوں نے سیارہ زمین کی تخلیق کے حوالے سے نیا نظریہ پیش کیا ہے، جس سے کرہ ارض کے سب سے قدیم راز سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔

اس راز کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ کہ ہمارا سیارہ یہاں تک کیسے پہنچا اور اس کی تخلیق کیسے ہوئی، سائنس دانوں کا یہ نظریہ زمین کی غیر معمولی کیمیائی ساخت کی وضاحت بھی کرے گا۔

اس کے علاوہ یہ ہمارے جیسے دیگر سیاروں کے بارے میں جاننے میں بھی مدد گار ہو سکتا ہے۔

ای ٹی ایچ زیورخ میں ایکسپیریمنٹل پلینیٹولوجی کے پروفیسر پاؤلو سوسی نے بتایا: ’فلکی طبیعیات اور کاسمو کیمسٹری میں مروجہ نظریہ یہ ہے کہ ہماری زمین شہاب ثاقب کے پتھروں (Chondritic Asteroids) سے بنی ہوئی ہے۔ یہ چٹان اور دھات کے نسبتاً چھوٹے اور سادہ بلاکس ہیں جو نظام شمسی میں ابتدائی طور پر تشکیل پائے تھے۔‘

ان کے بقول: ’اس نظریے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس مادے (Chondrites) کا کوئی مرکب زمین کی صحیح ساخت کی وضاحت نہیں کر سکتا جو ہماری توقع کے برعکس ہلکے اور ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے بخارات میں تبدیل ہو جانے والے عناصر جیسے ہیں۔‘

محققین نے اس عمل کی وضاحت کے لیے برسوں کے دوران متعدد نظریات پیش کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کی ساخت میں موجود خام مواد کے تصادم نے بہت زیادہ گرمی پیدا کی اور ہلکے عناصر کو بخارات بنا دیا۔

تاہم کرہ ارض کی آئسوٹوپک کمپوزیشن (کیمیائی ترکیب) مختلف نظر آتی ہے یعنی کیمیائی عنصر کے آئسوٹوپس میں تمام پروٹون کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ان میں نیوٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔

پروفیسر سوسی نے کہا کہ ’کم نیوٹران والے آئسوٹوپس ہلکے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں زیادہ آسانی سے تحلیل ہونے کے قابل ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’اگر حرارت کے ذریعے بخارات بننے کا نظریہ درست ہوتا تو ہمیں آج زمین پر اصل  کونڈرائٹس (Chondrites) کے مقابلے میں یہ ہلکے آئسوٹوپس کم تعداد میں ملتے لیکن یہ بالکل وہی ہے جو آئسوٹوپ کی پیمائش ظاہر نہیں کرتے۔‘

محققین نے اس کا بہتر جواب تلاش کرنا شروع کر دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نظام شمسی میں سیاروں کی تشکیل وقت کے ساتھ ساتھ ہوئی جس میں چھوٹے چھوٹے دانے سیاروں کی شکل میں بڑھتے چلے گئے۔ ایسا پھیلتی ہوئی گیس اور دھول کے چھوٹے اجسام کا اپنی کشش ثقل کے ذریعے مواد جمع کرکے ہوا۔

کونڈرائٹس کے برعکس سیاروں کے مواد کافی گرم ہوتے ہیں تاکہ ان کے دھاتی کور اور چٹانی مینٹل کے درمیان فاصلہ پیدا ہو سکے۔ مزید برآں سورج کے ارد گرد مختلف فاصلوں یا مختلف اوقات میں بننے والے سیاروں کی مختلف کیمیائی ترکیبیں ہو سکتی ہیں۔

اس ٹیم نے ہزاروں سیاروں کے مواد کے ٹکرانے کے سمولیشنز (نقل) کا مشاہدہ کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ جیسے اجسام پیدا کر سکتے ہیں۔

ان سمولیشنز سے پتہ چلا کہ نہ صرف بہت سے مختلف سیاروں کے مواد کے مرکب سے کرہ ارض کی تشکیل ہو سکتی ہے بلکہ یہ کہ ایک ایسا سیارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جو زمین کی ساخت سے سب سے زیادہ قریب ہو۔

پروفیسر سوسی کا کہنا تھا: ’اگرچہ ہمیں اس پر شبہ تھا لیکن پھر بھی ہمیں یہ نتیجہ بہت ہی قابل ذکر محسوس ہوا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اب ہمارے پاس نہ صرف ایک ایسا طریقہ کار موجود ہے جو زمین کی تشکیل کی بہتر وضاحت کرتا ہے بلکہ ہمارے پاس دوسرے چٹانی سیاروں کی تشکیل کی وضاحت کے لیے بھی ایک حوالہ موجود ہے۔‘

مثال کے طور پر اس طریقہ کار کو استعمال کر کے یہ پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ عطارد کی ساخت دوسرے چٹانی سیاروں سے کس طرح مختلف ہے یا دوسرے ستاروں کے چٹانی سیارے کیسے بن سکتے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی