ایسا سیارہ جہاں چٹانوں کی بارش ہوتی ہے

سائنس دانوں نے کے2۔141 بی کے نامی ایک سیارہ دریافت کیا ہے، جہاں ہوائیں آواز کی رفتار سے زیادہ تیز چلتی ہیں۔

سورج  کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے اس سیارے پر سال، زمین کے دن کے تیسرے حصے سے کم عرصے پر محیط ہیں اور کشش ثقل نے اسے جکڑ رکھا ہے  (فائل تصویر: اے ایف پی)

سائنس دانوں نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جہاں چٹانوں کی بارش ہوتی ہے۔ ہوائیں آواز کی رفتار سے زیادہ تیز چلتی ہیں اور لاوے کا ایک سمندر ہے جس کی گہرائی 100 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔

محققین کو اس سے پہلے بھی انتہائی 'لاوے والے' سیارے مل چکے ہیں۔ یہ اپنے میزبان سیاروں کے بے حد قریب موجود دنیائیں ہیں جن کی سطح پگھلے ہوئے لاوے کے سمندروں سے بھری ہوئی ہے، لیکن جس سیارے کا تازہ تجزیہ کیا گیا ہے کہ اسے کے2۔141 بی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سیارہ ان انتہائی دنیاؤں میں بھی معمول سے ہٹ کر ہے۔ اس کی سطح، سمندر اور فضا سب چٹانوں سے بنے ہوئے ہیں جو بارش کی طرح برستے ہیں اور بڑے بڑے سمندروں میں پگھل جاتے ہیں۔

سیارے کے دو تہائی حصے میں نارنجی رنگ کے اس ٹھگنے ستارے سے مسلسل آتی ہوئی چندھیا دینے والی روشنی رہتی ہے جس کے گرد کے 2۔141 بی چکر لگا رہا ہے۔ سورج کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے اس سیارے پر سال، زمین کے دن کے تیسرے حصے سے کم عرصے پر محیط ہیں اور کشش ثقل نے اسے جکڑ رکھا ہے، جس مطلب یہ ہے کہ سیارے کا ہمیشہ ایک ہی رخ اس کے ستارے کی طرف رہتا ہے۔

سیارے کے تاریک حصے میں درجہ حرارت منفی 200 ڈگری سیلسیئس ہے۔ دوسری جانب جہاں دن کی روشنی پڑتی ہے، وہاں درجہ حرارت 3000 ڈگری سیلسیئس ہے۔ یہ درجہ حرارت چٹانوں کو بخارات میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔

یہ ایسی فضا ہے جہاں انہی اصولوں کی طرح جن کے تحت زمین پر بارش ہوتی ہے، بخارات بنتے ہیں۔ جس طرح پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے اور دوبارہ بخارات میں تبدیل ہونے سے پہلے بارش بن کر گرتا ہے، اسی طرح کے 2۔ 141 بی پر یہ کام سوڈیم سلیکون مونوآکسائیڈ اور سلیکون ڈائی آکسائیڈ کرتے ہیں اور واپس سطح پر آن گرتے ہیں جبکہ آواز کی رفتار سے زیادہ تیز ہوائیں سیارے کے چٹانی ماحول کو تاریک حصے تک پھیلا دیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین نے یہ سمجھنے کے لیے کہ سیارے پر کس طرح کے حالات ہیں، کمپیوٹر پر اس کی نقول تیار کی ہیں۔ سیارے کا حجم تقریباً وہی ہے جو زمین کا ہے لیکن وہ اپنے سورج کے زیادہ قریب ہے۔ یہ سیارہ 200 نوری سال کے فاصلے پر ہے اور 2018 میں دریافت ہوا تھا۔

محققین نے دنیا سے متعلق موجود ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر میں بنائی گئی اس کی نقول کا تجزیہ کیا، جس سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ سیارے کی فضا اور موسم کے چکر کس سے ملتے جلتے ہو سکتے ہیں۔ ان کے نتائج کو مستقبل کی ٹیکنالوجی کی مدد سے جانچا جا سکتا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دوردراز کے سیاروں کی فضا اور ساخت کا زیادہ تفصیلی مشاہدہ کیا جا سکے گا۔

تحقیق کے نتائج تحریر کرنے والے سرکردہ محقق اور یورک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ جیانگ وین نے کہا: 'پہلی بار ایسی تحقیق کی گئی ہے جس کی مدد سے کے 2۔141 بی کے ان موسمی حالات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے جن کا جدیدترین دوربینوں جیسا کہ جیمزویب سپیس ٹیلی سکوپ کے ساتھ سینکڑوں نوری سال کے فاصلے سے پتہ لگایا جا سکتا ہے۔'

اس تحقیق کے نتائج ایک اخبار میں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ تحقیق کو'لاوہ سیارے کے 2۔141 بی کے ماڈل کی تیاری: کم اور زیادہ ریزولیوشن کے سپیکٹروسکوپ کے استعمال کے مضمرات' کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ تحقیق 'منتھلی نوٹسز آف دا رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی' نامی جریدے میں شائع ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس