کیا پاکستان میں معاشی بدحالی خیراتی اداروں کو بھی متاثر کر رہی ہے؟

ہر سال چندوں کی شکل میں اربوں روپے اکٹھے کر کے خدمت انسانی کے منصوبوں پر خرچ کرنے والے سینکڑوں غیر سرکاری فلاحی و خیراتی ادارے گذشتہ چند برسوں سے گمبھیر مالی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے اہلکار 11 اپریل 2021 کو رمضان سے قبل ضرورت مند افراد میں راشن کی تقسیم کے لیے بیگ بنا رہے ہیں (اے ایف پی)

دنیا بھر میں فلاحی کام کرنے والے پاکستانی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کو حال ہی میں اپنی ایمبولینس سروس کے رعایتی نرخوں میں 10 روپے فی کلومیٹر کا اضافہ کرنا پڑا ہے۔

پاکستان میں انتقال خون کے میدان میں سب سے بڑی این جی او فاطمید فاؤنڈیشن میں سال رواں کے دوران تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے ادویات کا بجٹ ضرورت کے باوجود بڑھایا نہیں جا سکا۔

پاکستان اور بیرون ملک خدمت خلق میں کوشاں الخدمت فاؤنڈیشن دل اور گردے کی پیوندکاری کے جدید ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ دوسرے کئی منصوبوں کو فی الحال موخر کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔

ہر سال چندوں کی شکل میں اربوں روپے اکٹھے کر کے خدمت انسانی کے منصوبوں پر خرچ کرنے والے یہ ادارے اور ان جیسے سینکڑوں دوسرے غیر سرکاری فلاحی ادارے گذشتہ چند برسوں سے مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن كے سربراہ فیصل ایدھی نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا: ’گذشتہ دو تین سالوں کے دوران ہمارے مالی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، یہ اس کے باوجود ہے کہ ہمیں عطیات دینے والوں کی تعداد اور وصول ہونے والی رقوم میں فرق نہیں آیا۔‘

گذشتہ دو سالوں کے دوران پیٹرول کی قیمتوں میں بےدریغ اضافے کے باعث دنیا کی سب سے بڑی سمجھی جانے والی ایمبولینس سروس، ایدھی ایمبولینس سروس، نے مریضوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا رعایتی کرایہ 25 روپے سے بڑھا کر 35 روپے فی کلومیٹر کر دیا۔

فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ کرایوں میں اضافے کے باوجود ادارے کو عوامی خدمات کے لیے استعمال ہونے والی ایمبولینس گاڑیوں پر 75 فیصد سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔

پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور خیراتی اداروں کی سرٹیفیکیشن کرنے والے ادارے سینٹر فار فلنتھراپی (سی پی سی) کے مطابق ملک میں چھوٹی بڑی غیر سرکاری تنظیموں اور فلاحی اداروں کی تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔

عطیات سے چلنے اور صحیح معنوں میں خلق خدا کی بہبود کے لیے فلاحی کام کرنے والے اداروں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے، جو صحت، تعلیم، مائیکرو فنانسنگ، خواتین، بچوں، معذور افراد اور جانوروں کے حقوق کے علاوہ عمومی انسانی حقوق، اور کمیونٹی ویلفئیر کے دوسرے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ریاست پاکستان نے کچھ فلاحی اداروں یا این جی اوز کو عطیات کی ادائیگی پر پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔

عوام سے وصول ہونے والے عطیات کے علاوہ بیشتر فلاحی ادارے حکومتی گرانٹس اور بیرون ملک سے بھی مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو پر چند روز قبل شائع ہونے والے ایک مضمون میں سجاد اظہر نے سی پی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ 20-2019 کے دوران ایک ہزار سے زیادہ پبلک لسٹیڈ، ان لسٹیڈ اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں نے تقریباً ساڑھے 16 ارب روپے خیراتی کاموں میں صرف کیے، جو 19-2018 سے چار ارب روپے زیادہ رہے۔

یوں تو پاکستانی عوام سارا سال ہی صدقات اور خیرات کی صورت میں فلاحی اداروں کی مالی امداد جاری رکھتے ہیں، تاہم اس سلسلے میں ماہ صیام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اسی مہینے میں مسلمان سال بھر کی زکواۃ اور عیدالفطر کے موقعے پر فطرانہ ادا کرتے ہیں۔

پی سی پی ہی کے 2015 میں 15 ہزار گھرانوں پر کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ عام پاکستانی شہری ہر سال 240 ارب روپے خیرات کی مد میں خرچ کرتے ہیں۔

پاکستان میں قدرتی آفات کی صورت میں عطیات دینے کا رجحان سب سے زیادہ دیکھنے میں آتا ہے، اور اس سلسلے میں 2005 میں خیبر پختونخوا (اس وقت کے صوبہ سرحد) اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے بعض اضلاع کو متاثر کرنے والا زلزلہ قابل ذکر سمجھا جاتا ہے۔  

فلاحی اداروں کی مالی مشکلات کی وجہ کیا ہے؟ 

پاکستان میں عطیات اور گرانٹس پر چلنے والے فلاحی یا خیراتی ادارے گذشتہ چند برسوں سے شدید مالی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ ملک میں جاری معاشی بدحالی کو قرار دیا جاتا ہے۔

تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے شکار بچوں کے لیے خون کے عطیات کا بندوبست کرنے والے ادارے فاطمید فاؤنڈیشن کے جنرل منیجر فنانس محمد آصف کا کہنا تھا کہ موجودہ ملکی مالی صورت حال میں فلاحی اداروں کی بقا مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ عطیات اور صدقات زیادہ تر مڈل کلاس کے لوگ دیتے ہیں، جو گذشتہ کئی برسوں سے مالی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اب جو شخص پانچ کلو آٹا 1700 کی بجائے تین ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور ہے وہ کیسے صدقہ یا خیرات کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔‘

گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، جس کے باعث جون میں غیر ملکی زر مبادلہ کے زخائر نو ارب ڈالر سے کم رہ گئے تھے، جبکہ درآمدات اور برآمدات کا توازن بھی بری طرح بگڑا ہوا ہے۔

عالمی بینک کے ’پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ‘ میں پاکستان کی معیشت کی ساخت میں پائی جانے والی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی کمی، کم برآمدات، اور کم پیداواری ترقی کو ملک کی مالی بدحالی کی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔

ماضی قریب میں پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا، جو ملک میں ایک عشرے کے بلند ترین افراط زر کا باعث بنا۔ 

محمد آصف نے بتایا كہ كووڈ 19 كی وبا نے سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہوئے عوام اور فلاحی اداروں کے مسائل کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے، اور برے وقت کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔

ایدھی فاؤنڈیشن كے فیصل ایدھی كا كہنا تھا كہ اگرچہ ان كا ادارہ ڈونرز كی تفصیلات كا ریكارڈ نہیں ركھتا تاہم اندازہ ہے كہ عطیات میں كمی واقع نہیں ہوئی۔ ’لیكن اس كے باوجود ہم مالی مشكلات میں اضافہ محسوس كر رہے ہیں۔‘

فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں قائم ایدھی مراکز پر رعایتی طبعی سہولتوں کے لیے فون کالز میں 25 فیصد کمی آئی ہے، جو بری ملکی معیشت کے باعث عام شہری کی قوت خرید میں بےپناہ کمی کو ثابت کرتا ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ثاقت انصاری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 50 فیصد آبادی کی سرکاری طبی سہولتوں تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے۔

 

’اس طبقے کی صحت سے متعلق ضروریات ہم جیسے غیر سرکاری فلاحی ادارے ہی پوری کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی زبوں حالی سے ان کا ادارہ بھی متاثر ہوا، تاہم خلق خدا کی خدمات میں کمی نہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

خراب معیشت فلاحی اداروں كو كیسے متاثر كرتی ہے؟

برطانیہ میں فلاحی اداروں كی كاركردگی بہتر بنانے كے لیے كام كرنے والے ادارے پرو بونو اكنامكس كے مطابق ملكی معیشت خراب ہونے كی صورت میں خیراتی ادارے مندرجہ ذیل طریقوں سے متاثر ہو سكتے ہیں۔

1۔ معاشی بدحالی کسی بھی ملک میں چیزوں اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے، اور فلاحی ادارے جنہیں اپنے منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے بڑی خریداریاں کرنا پڑتی ہیں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

فیصل ایدھی كا كہنا تھا كہ راشن، تیل، دوسری اشیا کی نرخوں اور ملازمین كی تنخواہوں میں اضافے كی وجہ سے ایدھی فاؤنڈیشن كے اخراجات میں 35 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا كہ ایدھی فاؤنڈیشن كے ملک بھر میں موجود مراكز میں پانچ ہزار مریض زیرعلاج ہیں جن کی ادویات اور کھانے کے اخراجات 70 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔

ان کا کنا تھا: ’کوئی دوسرا ادارہ ہوتا تو اب تک گر چکا ہوتا لیکن ہم نے اپنی سروسز میں بھی کمی نہیں کی۔‘

انتقال خون کے میدان میں کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے حمزہ فاؤنڈیشن کے سینئیر اہلکار حلیم گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے انتقال خون میں استعمال ہونے والی اکثر اشیا بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، جن کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہمارے اخراجات 20 سے 25 لاکھ روپے ماہانہ سے بڑھ کر تقریباً 35 لاکھ روپے ہو گئے ہیں، اور اس سال ہمیں کئی لاکھ روپے کا سامان قرض پر اٹھانا پڑا ہے۔‘

انہوں نے بتایا كہ ماضی میں ماہ رمضان میں انہیں اتنے عطیات مل جایا كرتے تھے كہ وہ سال بھر كے قرضہ جات اتار سكتے تھے، لیكن اس سال ایسا ممكن نہیں ہو سكا۔

فاطمید فاؤنڈیشن کے محمد آصف نے بتایا کہ پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کے باعث انہیں زکوۃ کی مد میں ملنے والے عطیات بڑھے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اخراجات میں بھی بےپناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو ان کے بجٹ کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہے۔

2۔ خراب معیشت معاشرے میں افراد کی آمدن کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جس سے فلاحی اداروں کو ملنے والے عطیات اور ڈونیشنز میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں معاشی بدحالی سے بڑے فلاحی اداروں کی آمدن متاثر نہیں ہوئی، تاہم مخصوص علاقوں میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیمیں کو بری معیشت کی وجہ سے جھٹکا ضرور لگا ہے۔

حمزہ فاؤنڈیشن، جس کے زیر اہتمام صرف پشاور میں ہی انتقال خون کا ایک مرکز چلتا ہے، کے حلیم گل نے بتایا کہ چند سال پہلے تک اںہیں رمضان میں زکوۃ اور فطرانے کی مد میں 25 سے 30 لاکھ روپے مل جایا کرتے تھے، جو اب کم ہو کر 12 لاکھ رہ گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’ہمارے کئی ایسے كاروباری ڈونرز تھے جو ہمیں گاہے بہ گاہے ایک دو لاکھ روپے دے دیا کرتے تھے، لیکن اب ان کے کاروبار خراب ہیں اور انہوں نے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔‘

الخدمت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھا کہ ان كے ادارے كو عطیات دینے والے افراد اور اداروں كی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، اور معمول كے حالات میں آمدن میں اضافہ ہونا چاہیے تھا، لیكن ایسا ہو نہیں رہا۔

’یہ ثابت كرتا ہے كہ ملک كی خراب معیشت نے نہ صرف عام آدمی بلكہ صاحب ثروت كو بھی مالی طور پر متاثر كیا ہے۔‘

بدحال معاشی حالات میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی دو سال قبل فلاحی اداروں کی گرانٹس میں کمی کی تھی، جس سے فاطمید فاؤنڈیشن کی سالانہ گرانٹ میں 20 لاکھ روپے کمی واقعہ ہوئی۔

3۔ خراب معیشتوں میں مہنگائی اور افراط زر کے باعث مالی طور پر محروم طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اور ایسی صورت حال میں فلاحی اداروں سے مستفید ہونے والوں کی ضرورتوں، امیدوں اور مطالبات بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں کم آمدن والے خاندانوں کے لیے دو ہزار روپے ماہانہ کی امدادی رقم کا اعلان کیا، جسے عام طور پر طنز کا نشانہ بنایا گیا۔

اگرچہ پاکستان میں بہت کم آمدن رکھنے والے لاکھوں خاندانوں کے لیے یہ امدادی رقم معقول ثابت ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ مہنگائی کی لہر کے پیش نظر اسے ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ثاقت انصاری کا کہنا تھا: ’ہمیں تو اپنے ادارے میں كام كرنے والوں كی ادا كی جانے والی تنخواہیں بھی بہت كم نظر آتی ہیں، نہیں معلوم محدود آمدن ركھنے والے گھرانے اتنی كم تنخواہوں میں كیسے گزاراہ كرتے ہوں گے۔‘

فلاحی ادارے خراب معیشت سے كیسے نبرد آزما ہو رہے ہیں؟

ملک كی بدحال معیشت كے پیش نظر پرو بونو اكنامكس فلاحی اداروں كو ان کی خدمات کی مانگ میں ممكنہ تبدیلی کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی، اپنے ملازمین کی اجرتوں پر بروقت نظر ثانی اور آمدنی کے اہداف پر گاہے بہ گاہے نظر ثانی اور افراط زر کے تناظر میں ان کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کی تجاویز دیتا ہے۔

فاطمید فاؤنڈیشن نے معاشی بدحالی اور ادارے کے اخراجات میں اضافے کے بعد سے اپنے ہاں کم خرچے اور سادگی کی مہم کا آغاز کیا ہے۔

فاؤنڈیشن کے جنرل منیجر فنانس محمد آصف نے بتایا کہ انتظامیہ اپنے ورکرز اور ملازمین پر دفاتر اور مراکز میں بجلی کے آلات کم سے کم جلانے کی ضرورت پر زور دیتی ہے، جبکہ کاغذ کے استعمال کو بھی ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ادارے نے رواں سال کے دوران نئی بھرتیوں پر پابندی لگا کر بھی اخراجات میں کمی کرنے کی کوشش کی ہے۔

محمد آصف کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے گذشتہ سال ادویات کے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا، اور اسے نو کروڑ روپے تک ہی محدود رکھنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا: ’چار سال میں فاطمید فاؤنڈیشن نے دوائیوں کے بجٹ میں چار گنا اضافہ کیا تھا، لیکن گذشتہ سال ضرورت کے باوجود اسے نہیں بڑھایا گیا۔‘

ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی ایمبولینس سروس کے رعایتی کرایوں میں اضافہ کیا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ افراط زر اور قیمتوں میں اضافے سے ان کی مالی صورت حال متاثر تو ہوئی، تاہم ادارے کی ماضی میں کی گئی بچت نے انہیں اس مشکل وقت میں سہارا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم، جو ان کے والد تھے، کے فیصلے کے مطابق ادارے نے بچت کی غرض سے اینڈومنٹ فنڈز قائم کیے تھے، جن میں موجود رقوم سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

’ہمیں بڑی حد تک ان بچتوں نے ہی ان صورت حال میں بچایا ہوا ہے، اضافی اخراجات ہم انہی فنڈز میں سے پورے کر رہے ہیں۔‘

اسی طرح الخدمت فاؤنڈیشن میں گذشتہ کئی برسوں سے دل اور گردوں کی پیوندکاری کے ہسپتال قائم کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا، جو معاشی مشکلات کے باعث تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھا کہ نئے ہسپتالوں اور مراکز کے علاوہ بعض دوسرے نئے پراجیکٹس بھی پائپ لائن میں تھے، جبکہ موجودہ سروسز کو بہتر بنانے کی بھی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔

'لیكن اس معاشی ابتری نے ہمیں ان سارے منصوبوں كو سرد خانے میں ركھنے پر مجبور كر دیا ہے۔'

اسی طرح ایدھی فاونڈیشن بھی کراچی میں ٹیکنیکل سکول اور نرسنگ سکول قائم کرنے کا ارادہ رکتی تھی، تاہم مالی مشکلات کے باعث ان پراجیکٹس کو فی الحال موخر کر دیا گیا ہے۔

حمزہ فاونڈیشن كے حلیم گل نے بتایا كہ معاشی مشكلات كے باعث ان كے ادارے کو اخراجات كم كرنے كی غرض سے كم از كم دس ملازمین كو فارغ کرنا پڑا۔

'ادارے نے فیصلہ کیا کہ بیمار بچوں کو فراہم کردہ سہولتوں میں کمی کی بجائے ملازمین کی تعداد کم کی جائے، اب ہمارے ہاں ہر ملازم پہلے سے دو گنا زیادہ کام کر رہا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان