بجلی بحران: کیا غلطیاں ہوئیں اور کیسے ٹھیک ہو سکتی ہیں؟

دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہ شعبہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بہت زیادہ خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔

کراچی میں ایک ٹیکنیشن 28 فروری 2022 کو ایک ہائی ولٹیج لائن پر کام کر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا ہے، جو اس سال موسم گرما میں ملک کے بعض علاقوں میں 18، 18 گھنٹے کے دورانیے پر بھی محیط رہی ہے۔

دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہ شعبہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بہت زیادہ خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔

بجلی بنانے سے اس کی ترسیل، تقسیم اور بلنگ کے نظاموں میں بدانتظامی کھلی نظر آتی ہے، لیکن اس کا ازالہ کرنے کی کوئی کوششیں کارگر ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔

توانائی کے شعبے سے متعلق تحقیق کرنے والے میاں محمد سالک کا کہتے ہیں کہ پاکستان کے توانائی کے نظام میں بہت بڑے بڑے سٹرکچرل مسائل ہیں، جنہیں ٹھیک کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پیٹرولیم مصنوعات اور مائع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہیں، جبكہ بجلی كے شعبے كا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہ سب جز وقتی رکاوٹیں ہیں اور مستقبل میں ان پر محض بدانتظامی دور كر كے قابو پایا جا سكتا ہے، لیكن بڑے مسائل دوسرے ہیں۔‘

ان کے خیال میں توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل پانی سے بجلی پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضائع ہونا، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہیں۔

وفاقی حکومت کے پاور ڈویژن کے سابق سینئیر ڈائریکٹر سلمان نجیب کا کہتے ہیں کہ توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کے لیے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمہ داری سے استعمال کیا گیا، جس کے باعث پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔

پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 37 ہزار میگا واٹ ہے، جبکہ ملک کی 27 ہزار میگا واٹ کی ضرورت کے برعکس تقریباً 21 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

اکثر ماہرین کے خیال میں اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کے ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ان کے بقول: ’اس لیے اگر ہم بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کر لیں تو اس سے لوڈ شیڈنگ کے روزانہ کے دورانیے میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔‘

پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کوئی نیا مظہر نہیں ہے بلکہ 80 اور 90 کی دہائیوں کے دوران بھی ملک بھر میں روزانہ طویل دورانیوں کے لیے بجلی کی ترسیل معطل ہوتی رہی ہے۔

برقی توانائی کے بحران اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی، جس سے قومی پیداوار برآمدات میں کمی واقع ہوئی، اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت پر برے اثرات پڑے۔

حالیہ دور میں روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث بین الاقوامی منڈی میں مائع گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، اور پاکستان زیادہ قیمت پر ان کی خریداری کا متحمل نہیں ہو پا رہا، جس کی وجہ سے برقی توانائی پیدا کرنے والے کئی کارخانے بند پڑے ہیں۔

وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے لوڈ شیڈنگ کی وجوہات میں ایک وجہ ملک میں بجلی کے کئی کارخانوں کی ضروری مرمت کا کام نامکمل اور بیرون ملک سے پرزے نہ منگوانے کے باعث بندش کو بھی قرار دیا تھا۔

پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی تاریخ

پاکستان میں بجلی کی پیداوار 60 کی دہائی میں شروع ہوئی، جب وارسک ڈیم اور منگلا ڈیم جیسے بڑے پراجیکٹس سے پانی سے بننے والی بجلی کا شرحصول شروع ہوا، جبکہ 70 کی دہائی کے اوائل میں دنیا میں مٹی کے سب سے بڑے تربیلا ڈیم کا افتتاح کیا گیا۔

70  کی دہائی میں ہی بجلی بنانے کے لیے ڈیموں کے علاوہ جوہری توانائی کے استعمال کا بھی فیصلہ کیا گیا، اور 1971 میں کراچی کے قریب پہلے نیوکلئیر پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا، جبکہ 80 کی دہائی میں پاکستان نے تیل اور گیس کا استعمال کر کے بجلی بنانے لیے گڈو تھرمل پاور پلانٹ قائم کیا۔

90 کی دہائی میں پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار 11 ہزار میگا واٹ تھی، جس میں 60 فیصد پانی (ہائیڈرو پاور)، جبکہ باقی کی 40 فیصد نیوکلئیر پاور پلانٹس اور تھرمل پاور پلانٹس (تیل اور گیس سے چلنے والے پلانٹس) سے حاصل ہو رہی تھی۔

ملک میں بجلی کی کمی کے باعث 1994 میں حکومت پاکستان نے انرجی کنزرویشن پروگرام کے تحت بجلی پیدا کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے ساتھ 13 ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے 70 معاہدے کیے۔

آئی پی پیز نے پاکستان کو 6000 میگا واٹ بجلی دی، جس سے شارٹ فال ختم کرنے میں مدد ملی۔

2005 تک پاکستان اضافی بجلی پیدا کر رہا تھا، تاہم محض دو سال بعد ہی شارٹ فال کی نوبت آ گئی جو 2010 میں 5500 میگا واٹ تک پہنچ گیا۔

2012 میں ہوا سے چلنے والے پہلے پاور پلانٹ نے کام شروع کیا، لیکن 13-2012 میں شدید لوڈ شیڈنگ دیكھنے میں آئی۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت 2014 میں پاکستان پڑوسی ملک کے ساتھ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) معاہدے میں داخل ہوا، جس کے تحت 2018 تک ملک میں 33 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے 10 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے لیے کارخانے لگائے گئے۔

سی پیک کے تحت لگنے والے تھرمل پاور پلانٹس کی وجہ سے پاکستان میں 2018 کے بعد تقریباً چار سال تک بجلی کی پیداوار متوازن رہی، اور لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل میں بند رہا۔

تاہم حالیہ بین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر اور مبینہ طور پر گذشتہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بجلی کے بحران نے سر اٹھایا اور پاکستان کی عوام کو ایک مرتبہ پھر روزانہ طویل لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

غلطیاں کیا ہیں؟

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔

ملک کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔

پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے، ملک کے شمال میں پہاڑی سلسلوں میں سفر کرتے ہوئے اونچائی سے گرتا چلا جاتا ہے، اور یہی وہ مظہر ہے جو اس قدرتی مائع سے بجلی بنانے کے لیے موافق سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ زیادتی کی۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاور ڈویژن کے سابق سینئیر ڈائریکٹر سلمان نجیب کے خیال میں 90 کی دہائی میں آئی پی پیز کو لانا ایک بری پالیسی تھی، کیونکہ اس طرح پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا نظام گیس اور تیل پر منحصر ہو گیا، اور یہ دونوں اشیا بیرون ملک سے خریدنی پڑتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم تیل اور گیس کی خاطر قرضے لیتے رہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ قرض کے پیسوں سے بھی ہم پیٹرول اور ایل این جی خرید نہیں پا رہے ہیں۔‘

انہوں نے كہا كہ پاكستان كو پانی كی شكل میں قدرتی دولت كو استعمال كرنا چاہیے تھا، اور اس سلسلے میں سب سے اہم قدم بڑے ڈیموں كی تعمیر ہو سكتا تھا، جبكہ كالا باغ ڈیم پراجیكٹ كو متنازع بنا دیا گیا۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ اور ماہر معاشیات سلمان شاہ نے اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں كہا کہ سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان كے زمانے میں پاكستان نے جو ترقی كی وہ ڈیموں كی تعمیر كی وجہ سے ممكن ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو ایک انورڈ اکانومی (Inward Economy) بنا دیا گیا ہے، جس میں ملکی دولت كو ملک کے اندر ہی خرچ کیا جاتا ہے، اور ایسی معیشتوں میں برآمدات کی ترقی پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا: ’پاكستان میں ہم 90 فیصد سے زیادہ پیداوار اپنے اوپر ہی خرچ كرتے ہیں، بہت كم بیرون ملک بھیجتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں نے انورڈ اکانومی کے برعکس بجلی کی پیداوار کا انحصار ایسی چیزوں پر رکھ دیا جو ملک میں پائی ہی نہیں جاتیں، اور اسی لیے پاكستان كو بجلی كی پیداوار كی خاطر كوئلہ، گیس اور پیٹرول باہر سے درآمد كرنا پڑ رہے ہیں، جو موجودہ صورت حال میں ناممكن ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بجلی بنانے کے تھرمل پاور پلانٹس تو موجود ہیں، لیکن انہیں چلانے کے لیے ایندھن نہیں ہے، کیونکہ وہ باہر سے آتا ہے، مہنگا ہو گیا ہے اور ملک اتنی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔

سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کالاباغ اور بھاشا ڈیموں کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے تھا، جس سے ملک کو اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کم قیمت بجلی میسر ہوتی۔ ’ہم نے ڈیمز بنانا بند کیے اور آئی پی پیز کا نظام درآمد کیا تو آج یہ حال ہے ہمارا۔‘

سابق وفاقی وزیر كا كہنا تھا كہ پاكستان كے معاشی نظام میں بجلی كے نظام كی شكل میں ایک سٹركچرل خرابی پیدا ہو گئی ہے، اور قوم کو آئندہ 20 سال تک اسی کے ساتھ گزارا کرنا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پالیسی ساز اب شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا سوچ رہے ہیں، جو آج سے 10 سال پہلے کر لیا جانا چاہیے تھا۔

ان کے خیال میں شمسی توانائی کی پاکستان میں موجود گیس اور تیل کے مافیا ضرور مخالفت کریں گے، دوسرا شمسی توانائی سے رات کو بجلی پیدا نہیں کی جا سکتی۔

پاكستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اكنامكس (پی آئی ڈی ای) سے منسلک سینئیر تحقیق کار عافیہ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کا حل انرجی مارکیٹ کا قیام ہے، جس میں بجلی کا نرخ تعین کسی حکومتی ادارے کی بجائے مارکیٹ فورسز کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں انرجی سیکٹر کی ریفارمز کا مقصد ایک ایسی ہی انرجی مارکیٹ کی بنیاد رکھنا تھا، جس کے لیے دو سال قبل دوبارہ منصوبہ بندی کر کے کوشش کی گئی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی فروخت کرنے والے نرخوں کے تعین کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، کیونکہ ترسیل کی تمام کمپنیاں (ڈسکوز) خسارے میں ہیں اور مارکیٹ سے براہ راست بجلی خرید ہی نہیں سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کی خاطر حکومتی سطح پر غیر ملکی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے، جس کے اپنے نقصانات بڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جو ملکی حالات اور لوگوں کے رہن سہن سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہوتے ہیں۔

’جب تک حکومت پاکستان کے اندر کام کرنے والے ریسرچرز کو منصوبہ سازی میں ملوث نہیں کرتے توانائی بحراب کا حل ممکن نہیں ہو گا۔‘

ماہر ماحولیات اور توانائی قیصر اعجاز کا کہنا تھا کہ 1959 سے 2000 تک پاکستان نے آٹھ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا، جس کے باعث ملکی ترقی نے ٹیک آف کیا۔

انہوں نے کہا کہ 5-2004 میں پاکستان نے کچھ اہداف مقرر کیے تھے، جن میں 2015 تک ایران سے گیس پائپ لائن کی تکمیل، کوئلے سے 2000 میگا واٹ بجلی کی پیداوار، 2011 تک ایل این جی کا حصول اور پانی سے بجلی کی پیداوار میں مزید اضافے شامل تھے۔

’ان تمام اقدامات سے پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں 70 ہزار میگا واٹ کا اضافہ متوقع تھا، لیکن ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔‘

قیصر اعجاز نے كہا كہ بلوچستان میں سوئی كے مقام سے ملنے والی قدرتی گیس كو گھریلوں استعمال كے لیے نہایت سستے داموں فراہم كی گئی، جبکہ اسی قیمت پر ملک میں صنعتی ترقی کی جا سکتی تھی، اور آج ملکی صنعت مہنگی ایل این جی خرید نہیں پا رہی۔

حل کیا ہے؟

قیصر اعجاز کا خیال تھا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے تیل اور گیس کی تیز رفتاری سے تلاش بہت ضروری ہے، اور بلوچستان کا 60 فیصد علاوہ اس سلسلے میں غیر دریافت شدہ ہیں۔

ماہرین کے خیال میں پاکستان میں ہوا سے بجلی بنانے کے مواقع موجود ہیں جنہیں کم خرچ پر استعمال کر کے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ساحل کے ساتھ کئی ونڈ کوریڈورز موجود ہیں اور اس کے 10 فیصد ہوا والے علاقوں میں ہوا کی اوسط رفتار 7.87 میٹر فی سیکنڈ رہتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی سولر انرجی کے حصول کے لیے موضوع علاقوں کا 0.071 فیصد حصہ استعمال کر کے اپنی بجلی کی ضروریات کو آسانی سے پورا کر سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ متعدد کامیاب منصوبوں کے باوجود پاکستان میں دھوپ اور ہوا سے صرف 1500 میگاواٹ سے زیادہ کچھ زیادہ بجلی حاصل کر رہا ہے، جو اس کی مجموعی صلاحیت کا محض چار فیصد اور بجلی کی مجموعی پیداوار کے تقریبا دو فیصد کے برابر ہے۔

عالمی بینک کی ہی ایک دوسری تحقیق ’متغیر قابل تجدید توانائی لوکیشنل سٹڈی‘ میں پاكستان میں وسائل، ترسیلی، اور زراعت، خطہ، اور آبادی کے مراکز جیسی رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مقامات كی نشاندہی كی گئی ہے جہاں شمسی اور ہوا كے پاور پلانٹس لگائے جا سكتے ہیں۔

اس تحقیق میں تین نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔

1۔ شمسی اور ہوا کے 20 فیصد ہدف کافی حد تک موجودہ نظام میں اضافی سب سٹیشن کی گنجائش کو استعمال کرنے کے لیے شمسی اور ہوا کے منصوبوں کو احتیاط سے ترتیب دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

2۔ 30 فیصد تک پہنچنے کے لیے زیادہ اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، بشمول ہائیبرڈ سولر اور ونڈ پارکس کی ترقی کے جو اس مقصد کے لیے وقف ٹرانسمیشن لائنوں کے بہتر استعمال میں مدد کرتی ہے۔

3۔ بلوچستان پاکستان میں شمسی اور ہوا سے بجلی بنانے کے حوالے سے نمایا اہمیت رکھتا ہے۔ اس صوبے کے مغرب میں بہترین شمسی اور خصوصاً ہوا کے وسائل کی وجہ سے ملک کے باقی حصوں کو بجلی پہنچانے کے لیے بڑے سولر ونڈ فارمز تیار کرنا اور ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہائی وولٹیج ڈی سی لائن تعمیر کرنا معاشی طور پر بہترین ہو گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے یکم اگست کو نیشنل سولر انرجی پالیسی جاری کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

قیصر اعجاز کا خیال تھا کہ حکومت کو ملک میں بجلی کی بچت کے لیے ایک منظم مہم چلا کر لوگوں کو عادت بنانے میں مدد کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان