کیا شمسی توانائی ملک میں انقلاب لا سکتی ہے؟

حکومت نے یکم اگست 2022 کو نیشنل سولر انرجی پالیسی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے مطلوبہ ملکی معاشی فوائد حاصل ہو سکیں گے یا نہیں؟

پاکستان میں سولر پلانٹس کے پہلے مرحلے میں دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکومت پاکستان نے یکم اگست 2022 کو نیشنل سولر انرجی پالیسی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کو سولر انرجی (شمسی توانائی) پر منتقل کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس سے مطلوبہ ملکی معاشی فوائد حاصل ہو سکیں گے یا نہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

عمر صفدر لاہور کے علاقے گلبرک کے رہائشی ہیں۔ وہ بلوں میں اضافے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان تھے۔ دوست کے مشورے سے انہوں نے گھر کی چھت پر 7.5 کلو واٹ کا سولر پینل لگوایا ہے۔ وہ خوش ہیں کہ اس سے بجلی کا ماہانہ بل کم ہو گیا ہے۔

ان کا سولر پینل ایک ماہ میں بجلی کے تقریباً نو سو یونٹ پیدا کرتا ہے جبکہ ان کے گھر کا استعمال اوسطاً پانچ سو یونٹس ماہانہ ہے۔ اس طرح انہیں چار سو یونٹ ماہانہ کی بچت ہو رہی ہے، جو موجودہ حساب کے مطابق 12 سے 15 ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے۔

عمر کا کہنا ہے کہ سولر سسٹم کا فائدہ تو ہے لیکن سرکاری محکموں میں رشوت دیے بغیر نیٹ میٹرنگ کا نظام نہیں لگتا ہے۔ سرکاری محکمے کی بجائے میٹر اوپن مارکیٹ سے خریدنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر مٹھائی نہ دی جائے تو چھ ماہ سے قبل نیٹ میٹرنگ کے ساتھ سولر سسٹم لگنا تقریباً نا ممکن ہے۔ عوام کو حقیقی فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب یہ نظام صاف اور شفاف ہو گا۔

اس حوالے سے ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کو سولر انرجی کی ضرورت ہے اور پیٹرولیم مصنوعات سے بجلی پیدا کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، لیکن اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سولر انرجی منصوبے کی آڑ میں ڈالر سمگلنگ کا نیا راستہ کھول دیا گیا ہے، جس کا ذکر میں نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور گورنر سٹیٹ بینک سے ملاقات میں کیا تھا۔‘

بقول ظفر پراچہ: ’سولر پینلز پر زیرو ٹیکس ہونے کی وجہ سے درآمدکنندگان پانچ لاکھ ڈالر کا سامان منگوانے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی ایل سی کھلواتے ہیں۔ انوائیس کی رقم بڑھا کر پیش کی جاتی ہے جس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانچ لاکھ ڈالر کے سامان کے بدلے قانونی طور پر دس لاکھ ڈالر ملک سے باہر بھیج رہے ہیں، جو کہ تشویش ناک ہے۔

’پہلے ہی ملکی ڈالر ذخائر ایک مرتبہ پھر 10 ارب ڈالر سے نیچے آگئے ہیں۔ نئی پالیسی کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے بھی سولر انرجی کے لیے الگ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ ملکی مفاد میں ہو رہا ہے تو اس کی پذیرائی کی جانی چاہیے لیکن ماضی کے پیش نظر اس سے ملکی مسائل میں کمی ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’سندھ حکومت نے ماضی میں اسی طرح آر او پلانٹس بھی لگائے تھے، جس کے لیے اتھارٹی قائم کی گئی تھی۔ اربوں روپوں کا بجٹ خرچ ہوا لیکن وہ منصوبے صرف کاغذوں کی نظر ہو گئے۔ تین ماہ پہلے تک ملک میں نہ بجلی کی کمی تھی اور نہ سولر پینلز کی ضرورت تھی بلکہ یہ بتایا جاتا تھا کہ اضافی بجلی موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بجلی کا بحران دانستہ طور پر پیدا کر کے مالی فائدہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ظفر پراچہ نے کہا: ’اس حوالے سے سلمان شہباز کا نام لیا جا رہا ہے۔ حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سولر پلانٹس درآمد کرنے کی بجائے چین یا کسی اور ملک سے معاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت غیر ملکی کمپنیاں اپنے سرمائے سے پاکستان میں سولر پلانٹس لگائیں اور 10 سال تک بجلی کے بلوں کے ذریعے اپنی رقم وصول کر لیں۔ اس سے ڈالر ذخائر بھی کم نہیں ہوں گے اور سستی بجلی بھی عوام کو مل جائے گی۔

’چین اس طرح کے معاہدے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن شاید ہمارے سیاست دانوں کی اس میں دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ اس سے مبینہ طور پر مطلوبہ کمیشن اور کِک بیکس نہیں ملتی ہیں۔‘

اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک کو سولر انرجی کی طرف منتقل کرنا شاید ناگزیر ہو گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں انرجی بحران پیدا کیسے ہو گیا؟

بقول ڈاکٹر سلیمان شاہ: ’جس حکومت نے ملک میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے وہی اب سولر پلانٹس لگا رہی ہے۔ اگر 2015 میں ہی سولر انرجی کے پلانٹس لگائے جاتے تو ڈالر اور انرجی بحران پیدا نہ ہوتا۔

’نئے منصوبے لگانے سے پہلے پچھلی ناکامیوں کا حساب دینا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کے بجلی کے پچھلے منصوبے بھی کرپشن سے پاک نہیں تھے اور اس مرتبہ بھی سولر انرجی منصوبے سے اصل فائدہ شریف فیملی کو پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سولر پلانٹس لگانے کے بعد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے جو مہنگے معاہدے کیے گئے ہیں ان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے کیونکہ معاہدے کے مطابق ملک بجلی استعمال کرے یا نہ کرے اسے چارجز ادا کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ سولر پینلز کی درآمد  روپے پر بڑا بوجھ بن کر سامنے آ سکتی ہے۔ سولر انرجی کا اصل فائدہ اس وقت ہو گا جب سولر پینلز ملک میں تیار کیے جائیں گے۔‘

پاکستان کے پاس پینلز تیار کرنے کا خام مال وافر مقدار میں موجود ہے۔ اگر سرکار حقیقی معنوں میں عوام کا حقیقی فائدہ سوچ رہی ہے تو نیشنل سولر انرجی پالیسی میں مقامی سطح پر ان کی تیاری سے متعلق واضح لائحہ عمل پیش کرے۔ دوسری صورت میں یہ منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہو سکتا ہے۔

جب اس حوالے سے وزرات توانائی سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سولر انرجی پر کام کر کے اگلے سال تک تقریباً 9700 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور چین بھی پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے 2020 میں کیے گئے معاہدے پر کام تیز کرنے کی تیاری ہے۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ضروریات کا بڑا حصہ سولر انرجی پر منتقل کر چکے ہیں۔ چین 131 گیگا واٹ بجلی پیدا کر کے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ 51 گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جاپان 49.2 گیگا واٹ، جرمنی 42، اٹلی 19، بھارت18، برطانیہ 12، فرانس آٹھ، آسٹریلیاسات اور سپین 5.6 گیگا واٹ انرجی سولر سسٹم سے حاصل کر کر رہا ہے۔

پاکستان میں سولر پلانٹس کے پہلے مرحلے میں دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ سندھ حکومت پانی پر پانچ سو میگا واٹ کپیسٹی کا سولر پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سرکاری عمارتوں کو سولر پلانٹس پر منتقل کیا جائے گا۔ وزیراعظم ہاوس کو ایک ماہ میں سولر انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کو سولر پر منتقل کرنے سے کروڑوں روپوں کا فائدہ ہوا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور امید ہے کہ نئی پالیسی بھی کامیاب ثابت ہوگی۔ سرکار کے دعوے درست ہیں یا نہیں، اس بارے میں واضح طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

ان تمام حقائق کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سولر انرجی پاکستان میں بجلی کے بحران کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کی آب و ہوا اور موسم اس کے لیے موزوں ہیں، لیکن اس کے ساتھ جڑے منفی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈالر کی سمگلنگ، رشوت میں اضافہ، درآمدات میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور گرتے ہوئے ڈالر ذخائر ایسے مسائل ہیں جو نیشنل سولر انرجی پالیسی کے اعلان کے بعد بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو سولر بجلی ملک میں انقلاب تو نہیں لا سکے گی بلکہ ملک ایک نئے مالی بحران کا شکار ضرور ہو جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ