بورس جانسن کا استعفیٰ: وقت آ گیا ہے کہ برطانیہ تحریری آئین اپنا لے

برطانیہ میں حالیہ افراتفری، جس میں ماضی کی روایات دم توڑتی نظر آ رہی ہیں، پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس ملک کو تحریری قوانین کی ضرورت ہے۔ 

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سات جولائی 2022 کو لندن میں اپنے دفتر کے باہر استعفے کا اعلان کرتے ہوئے (اے ایف پی)

سب پر سکون ہو جائیں، برطانیہ کسی ’ٹرمپ لمحے‘ سے نہیں گزر رہا۔ کوئی نہیں، حتیٰ کہ بورسن جانسن بھی اقتدار پر قبضہ، انتخابی نتائج سے روگردانی اور ماورائے آئین کچھ کرنے کوشش نہیں کر رہے تھے۔ مستعفی ہونے تک اور ہوتے ہوئے بھی، وزیراعظم ’قواعد کے اندر رہ کر کھیل رہے تھے‘۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوا جیسے ہونا چاہیے تھا۔ بحران؟ کیسا بحران؟

اس طرح کے حالیہ واقعات کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا نقطہ نظر کہا جاسکتا ہے۔ یہ بلاشبہ جانسن کا دفاع بھی ہے۔ لیکن بات وزیراعظم کے ذاتی جواز سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جمعرات کی صبح جب ڈرامے کا آخری حصہ کھل کر سامنے آ رہا تھا، سابق وزیر اور آئین کے خود ساختہ محافظ لارڈ اوڈونیل نے پروگرام ’بی بی سی ٹوڈے‘ میں اظہار خیال کیا۔

جو ہو رہا تھا اس پر ان کے ردعمل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب کافی’عجیب‘ ہے لیکن ان حالات میں کہ جب ’ہماری آئیی حدود پر اس سے زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے جتنا کہ شائد اس پر ڈلنا چاہیے‘ مگر ’بالآخر... ہمارا نظام بالکل واضح اور خاصا طاقتور ہے۔‘ اس لیے، نہیں، وہ ہمیں یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی ’ٹرمپ‘ لمحہ ہے۔

دوبارہ سوال کرنے پر لارڈ اوڈونیل نے برطانوی نظام کی سادگی کو سراہا۔ انہوں نے بات کو اس طرح سمیٹا: وزیراعظم اس وقت تک عہدے پر برقرار رہیں جب تک کو پارلیمنٹ کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور (اس صورت میں) کنزرویٹو پارٹی، اگر وزیراعظم ایسا نہیں کر سکتے تو تب انہیں جانا ہو گا۔

ٹھیک ہے، جی ہاں۔ لیکن اس وقت ملک 50 سے زائد وزرا اور عہدیداروں بشمول وزیر خزانہ، کے استعفے اور جانسن کی ’لیولنگ اپ‘ پالیسی کی روح رواں مائیکل گوو کو برطرف کرنے پر غور کر رہا تھا اور حکومت لازمی طور پر کام کرنے سے قاصر تھی کیونکہ متعدد محکمے مکمل طور پر وزرا سے محروم تھے۔ اگر یہ آئینی بحران نہیں تھا تو یہ کیا ہے؟

یہ خیال کہ یہ سب بنیادی طور پر ٹھیک ہے اور ہر کوئی مہذب کام انجام دے جو برطانوی روایت ہے، جو ایک لحاظ سے دراصل جانسن کرنے والے تھے، مجھے یہ خود سے ہی مطمئن ہونے کا انتہائی مظاہرہ لگا۔ مؤرخ سر اینتھنی سیلڈن اس صورت حال کی حقیقت پر بہتر انداز میں بات کرتے نظر آئے جب انہوں نے کہا کہ تین سو سالوں میں کوئی بھی وزارت عظمیٰ ’اس طرح نمایاں طور پر شعلوں کی نذر نہیں ہوئی جیسے یہ ہوئی ہے۔ نہ صرف وزیراعظم بلکہ ملک کے لیے بھی کوئی بھی بات اتنی ذلت آمیز اور اتنی نقصان دہ نہیں رہی۔‘

یہ درست ہے۔ لیکن اس حقیقت کہ بورس جانسن کو بالآخر روانگی پر مجبور کیا گیا کو ہمارے غیر تحریری آئین کی توثیق کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، اگرچہ پہلے ہی کئی حلقے اسے ایسے ہی دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کاموں کو کرنے کا ہمارا پرانے انداز پر انحصار، وہ کام جو رسم و رواج، ایک ’شریف آدمی کے وعدے‘ اور متفقہ معیار پر منحصر ہیں، دراصل موجودہ دور کے لیے کافی نہیں ہیں۔ لیکن اگر یہ طریقہ کار اس وقت کام کر جائے تو ہو سکتا کہ اگلی بار یہ نہ کرے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے پاس حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار کو منظم کرنے کے لیے قواعد، حقیقی، تحریری قواعد موجود ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ تحریری آئین بذات خود کسی بات کی، بشمول جمہوریت کے تحفظ، کی کوئی ضمانت نہیں: بس بحر اوقیانوس کے اس پار دیکھیں۔ کیا وہاں شکست خوردہ صدر کی طرف سے اقتدار برقرار رکھنے کی پرتشدد کوشش نہیں کی گئی تھی، یہاں تک کہ جمہوری انتخابات کے نتائج کو غلط ثابت کرنے کی بھی؟ ایسا لگتا ہے کہ ایک طاقتور فرد، جو غرور، عزائم، غلط یقین یا کسی بھی بات سے متاثر ہو قواعد کو نظر انداز کر سکتا ہے جس طرح وہاں کیا گیا۔ یہاں ایسا شائد زیادہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور اس کے بڑے پیمانے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

کیا یہ بات ایوان نمائندگان کی خصوصی کمیٹی کی سماعتوں سے سامنے نہیں آرہی ہے جو اس وقت چھ جنوری 2021 کے واقعات کے ہر منٹ کا تفصیل سے جائزہ لے رہی ہے؟ کیا یہ کسی بھی طریقے سے اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش نہیں ہے۔ تمام آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ یہ وہ الزام ہے جو بورس جانسن پر لگایا گیا ہے اور دونوں رہنماؤں کے رویے کے درمیان متوازی خط کھینچا جا رہا ہے۔ اس طرح کیا یہ ’ٹرمپی لمحہ‘ نہیں ہے؟

ہوسکتا ہے کہ بورس جانسن اور ٹرمپ کی سیاسی جبلتوں میں مماثلتیں ہوں، اور ہمیشہ رہیں، اور اب بھی ان کا اپنی استثنائیت کے بارے میں نقطہ نظر بہت زیادہ ملتا جلتا ہو۔

تاہم  میرے نزدیک یہ دلیل بالکل غلط نتائج ہیں کہ امریکی آئینی نظام نے ٹرمپ جیسے کردار کی خلاف ورزیوں کے خلاف کوئی دفاع فراہم نہیں کیا، اور یہ کہ برطانیہ کا جمہوریت کا کم رسمی نظام کم از کم  امریکہ جتنا ہی مضبوط ہے۔

مجھے طویل عرصے سے ایسا لگتا تھا کہ بہت سے امریکی، خاص طور پر ڈیموکریٹ کی ترغیب دینے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکی، امریکی جمہوریت کے معیار کو ضرورت سے زیادہ ہی حقیر سمجھتے ہیں۔

امریکی آئین ان دو ’انتہائی‘ حالات میں بہت اچھی طرح کھڑا ہوا جن کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے: ٹرمپ کی صدارت اور 2000 کا ’ٹائیڈ‘ الیکشن۔ چیک اینڈ بیلنس نے کام کیا؛ اٹھارویں صدی کے اس آئین نے جمہوریت کا مضبوط دفاع کیا۔

دیگر کمزوریاں بے نقاب ہو گئیں۔ ٹرمپ کے حامی کسی نہ کسی طرح کیپٹل ہل کی سکیورٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ’بلا نتیجہ‘ انتخابات کے بعد اس سادہ حقیقت کی وجہ سے اتنا مقابلہ ہوا کہ فلوریڈا کی ووٹنگ مشینوں نے دوبارہ مکمل گنتی کو ناممکن بنا دیا۔ لیکن یہ آئین کی کمزوریاں نہیں تھیں اور آئین نے جمہوریت کی آخری دیوار کے طور پر قابل ستائش کام کیا۔

صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کا اختیار درحقیقت عدالتوں، مقننہ (کانگریس) اور عوام (انتخابات اور عوامی احتجاج میں) کی آئینی توازن کی طاقت سے بہت موثر طور پر محیط تھا۔

ٹرمپ کی یہ ’بغاوت‘ ناکام رہی- اگر اسے بغاوت سمجھا جانا چاہیے، جس پر میں سوال اٹھاتا ہوں- آئینی تحفظات کے مؤثر ہونے کی تصدیق کرتا ہے، جیسا کہ چھ جنوری کی سماعتیں اس وقت جاری ہیں۔

سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد اسقاط حمل کے قانون کو ختم کردیا گیا لیکن اس فیصلے کو ریاستوں، کانگریس ، شاید خود وائٹ ہاؤس تک میں پرکھا جائے گا اور آئینی ریاست میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔

برطانیہ کے نظام کی بڑھتی ہوئی سیالیت - جیسا کہ ماضی کے ’شریفانہ‘ اصولوں کا  اثر کم سے کم ہے - قانون کے ادارے اور وراثتی رواج کی جگہ تحریری قواعد کے ایک مجموعےکا کہتی ہے جو آج رائج ہے۔

مثال کے طور پر 2019 میں بورس جانسن کی پارلیمنٹ کو ختم کرنے کی متنازع کوشش کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا- یہ ایک نیا ادارہ ہے جو بعض اوقات آئینی عدالت کا کردار ادا کرتا ہے، حالانکہ ان ممالک کے برعکس جن کے پاس ایسی عدالت ہے، ہمارے پاس کوئی تحریری آئین نہیں ہے۔

پھر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کو ان کا اختیار کہاں سے ملتا ہے۔ اپنی ملازمت برقرار رکھنے کی کوشش میں بورس جانسن نے اپنے ’مینڈیٹ‘ کا حوالہ دیا۔ لیکن جیسا کہ ان کے ناقدین نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی ذاتی مینڈیٹ نہیں ہے۔ ان کی جماعت کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ ہے۔

انہوں نے فیصلہ کن انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور انہیں پارٹی کی قیادت کرنے کا مینڈیٹ حاصل تھا، وہ تھریسا مے کی جگہ اندرونی پارٹی نظام میں منتخب ہوئے تھے اور حال ہی میں انہوں نے اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ سے عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کیا تھا۔

لیکن کیا یہ درست ہے کہ کسی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نہ صرف پارٹی رہنما بلکہ وزیراعظم کو بھی موثر طریقے سے ہٹا سکتے ہیں جس کی جماعت کے پاس انتخابی مینڈیٹ ہے؟

لیبر پارٹی کے ایک  ساتھی لارڈ ووڈ نے بورس جانسن کی اپنے ’مینڈیٹ‘ سے اپیل کو ’انتہائی خطرناک... صدارتی نظام کے فریب کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت میں ایک وزیراعظم کی طرف مناسب سوچ کے بغیر آئین کا ایک حصہ‘ قرار دیا ہے۔

لیکن وزارت عظمیٰ کا اختیار تیزی سے ذاتی نوعیت کا ہو گیا ہے اور اس رحجان کا تبدیل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے۔

بہت سے دیگر ہنگاموں میں ملک کی صورت حال اب مزید غیریقینی ہونے والی ہے، اس بارے میں دلائل کے ساتھ کہ کیا بورس جانسن پارٹی کا نیا رہنما منتخب ہونے تک رہ سکتے ہیں، پارٹی قیادت کی دوڑ کے حکومت پر عدم استحکام پیدا کرنے والے اثرات اور اور ایک نئے وزیراعظم کی کی آمد۔ جس کے پاس کوئی انتخابی مینڈیٹ نہیں ہے۔

نومبر میں وسط مدتی انتخابات کے دوران امریکہ اپنی ’ثقافتی جنگ‘ میں الجھ سکتا ہے لیکن کم از کم امریکیوں کو آئینی تحفظات کا فائدہ حاصل ہے جو بڑی حد تک کارآمد ہیں۔ 

یہاں سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ، ہمیں کچھ سیکھنے کی ضرورت  ہے نہ کہ انہیں۔ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا