ہم لوگ انگریزی سے فل ٹائم بھاگتے ہیں اور اس میں ہمارا قصور بھی کوئی نہیں، ہم اردو میڈیم ہیں!
جس بچے نے تیسری چوتھی میں وہ قاعدہ پڑھا ہو کہ سارہ خان از ٹال، ہادی از شارٹ یا اسی زمانے میں جونی جونی یس پاپا منہ کھول کے سنی ہو، اسے کیسے پتہ لگ سکتا کہ بارنی یا ڈزنی پرنسز کی دنیا کون سی ہے؟ یہ عجیب و غریب لڑتے بھڑتے کارٹون کون سے ہیں اور بچوں کو پنک پینتھر یا ٹام اینڈ جیری سب سے زیادہ کیوں پسند ہیں؟
اردو ہماری قومی زبان ہے، الحمدللہ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن دنیا اس وقت چل ہی انگریزی پہ رہی ہے۔ لاکھ برا بھلا کہہ لیں، مادری زبانوں میں پڑھا لیں بچوں کو، جلوس نکال لیں، دنیا کو فرق کوئی نہیں پڑنا۔ عالمی گاؤں میں قدم رکھنا ہے تو پہلا دروازہ یہی ہے۔
ہم لوگ جاپان، چین یا کوریا وغیرہ کی مثالیں دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی زبان میں پڑھے اور دنیا بھر کو سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک بیچتے ہیں، حق ہے! سوال یہ ہے کہ اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم کے بعد ہم لوگ شاعر، ادیب یا مجھ جیسے کالم نگار کے علاوہ کیا چیز ایکسپورٹ کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس ایسے آسان لفظ موجود بھی ہیں جن کے ساتھ ہم ہر لمحے بدلتی سائنس کا مقابلہ کر سکیں؟
اردو میڈیم والوں کا صرف وہ نصاب دیکھ لیں جو اس وقت سائنسی تعلیم کے لیے پڑھایا جا رہا ہے۔ اول تو ہمارے پاس متبادل لفظ ہیں نہیں اور اگر ہیں تو وہ سب عربی فارسی لفظوں پر اٹھائی گئی عمارتیں ہیں۔ ناراض ہونے سے پہلے چند مثالیں چیک کریں۔
Acceleration اس لفظ کا مطلب ہے ’اسراع۔‘ اب اسراع کا مطلب کیا ہے مجھے کوئی سمجھائے، یا ایکسلریشن زیادہ آسان تھا؟
Radiation of Heat کا مطلب ہے ’اشعاع حرارت‘ ۔۔۔ تو اشعاع کے معانی کون بتائے گا؟
Conduction کا مطلب ’ایصال‘ ہے۔ صبح صبح محلے میں ہونے والے اعلانات جیسی آواز نہیں آتی کیا؟
Boiling point ہو گیا نقطہ کھولاؤ اور Specific Heat حرارت مخصوصہ بن گئی ۔۔۔ بتائیں پوری ایمان داری سے، انگریزی لفظ زیادہ آسان اور عام فہم نہیں تھے؟ اس طرح کی پچاس ہزار مثالیں اور ہیں، بلکہ جتنے لفظ اردو کی سائنس ڈکشنری میں ہوں گے شاید وہ سب کے سب اپنی جگہ یادگار مثال ہوں۔
لفظوں میں کوئی رولا نئیں، ترجمے کی غلطی کوئی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ زبان کو ہم نے کس مقام پر رکھا ہوا ہے اور ہم اس سے امید کیا کر رہے ہیں؟ اگر لاؤڈ سپیکر شروع میں ہی ہمارے یہاں ’بلند گو‘ ہو جاتا اور ہم اس لفظ کو بول رہے ہوتے تو آج کسی کو بلند گو عجیب نہ لگتا ۔۔۔ اب مگر پلوں سے پانی نکل گیا ہے۔
خیر، یہ تو وہ تھا جو پڑھائی وغیرہ کا معاملہ تھا۔ ابھی آ جائیں ان دوستوں پر جو فیس بک کو ’کتاب چہرہ‘ کہتے ہیں اور بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ ہم نے فیس بک کو ’اردوا‘ لیا۔ ایسے کرنا ہے تو پھر کیمل سگریٹ کو ’اونٹ برائے تمباکو کشیدنی‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟ بلکہ کمپیوٹر کے ماؤس کو بھی چوہا کہیں!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم اب تک اس بحث سے نہیں نکل سکے کہ اردو ہمارے بچوں کے لیے کتنی اہم ہے اور انگریزی کتنی۔ دوسری طرف باقی دنیا کو ایک دھیلے کی پروا نہیں کہ ہم سوچتے کیا ہیں، کیا لڑائی لڑ رہے ہیں، چاہتے کیا ہیں اور جو چاہتے ہیں اسے کرنا کیسے ہے۔ وہ لوگ سکون سے ہفتے ڈیڑھ بعد موبائل یا لیپ ٹاپ کا نیا کوئی ماڈل مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں جسے خریدنے میں ہزاروں روپے لگا کر سب سے پہلے ہم لوگ اس پر ’کی بورڈ‘ اردو کا لگاتے ہیں اور جشن شروع ہو جاتا ہے۔
اس سب کے باوجود ہم میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے اپنا پورا موبائل اردو میں کنورٹ کیا ہو گا؟ اگر کیا ہے تو ’Enter‘ کا ترجمہ کیا لکھا نظر آتا ہے؟ نہیں کیا تو کر کے دیکھ لیں، اسے بھی چھوڑیں، آپ دیکھیے گا واپس انگریزی سیٹنگ میں آنا مشکل ہو جائے گا۔
میں نے کبھی کسی انگریزی میڈیم ادارے سے کوئی ڈگری نہیں لی، ایم اے تک اردو میں پڑھا، نوکری اردو کی کرتا ہوں، دو کتابیں ہیں وہ بھی اردو کی ہیں، گھر میں بھی یہی زبان بولتا ہوں، دادا نانا کی زبان یہی تھی، مجھے اس سے شدید پیار بھی ہے ۔۔۔ کیا مجھے گالیاں کھانے کے لیے انگریزی زبان کی سائیڈ لینے کا شوق ہے یا میں چاہتا ہوں کہ ماڈرن کہلاؤں؟
دیکھیے، زبان کی فضیلت پر بزرگوں کی یہ روایتی بحث دو سو برس پرانی ہے۔ یہ چلتی رہے گی۔ ہر چیز کو اردو میں اتارنے کے منصوبے بھی چلتے رہیں گے۔ سب کچھ چلتے چلتے ایک نقصان یہ ہو گا کہ میری نسل کی طرح آپ بھی چالو چلتے چلے جائیں گے۔
آپ کس لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ نوکری کے لیے؟ کبھی جاب انٹرویو دیا ہے؟ سامنے والا انگریزی میں سوال پوچھے تو کیا حالت ہوتی ہے؟ کبھی کوئی دفتری کارروائی کی ای میل کرنا پڑ جائے تو کیسے بندہ ادھر اُدھر جھانکتا ہے؟ تب ہم صرف مجبور ہوتے ہیں، باہر نکل کے پھر چوڑے ہو جاتے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے، ایک آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے بارے میں دلائل دیں، اس سے وفادار رہیں، اس کے حق میں بیان دیں لیکن ۔۔۔ اپنی اولادوں کو ہمیں اس ڈبل آسرے پہ نہیں رکھنا چاہیے۔
بے شک سکول میں انگریزی میڈیم نہ ہو، آپ بچوں کو یوٹیوب پہ ویڈیوز کے ذریعے انگلش سیکھنے کا مشورہ دے دیں، انگریزی فلمیں اور کارٹون دکھا دیں، چھوٹی موٹی انگریزی کتابیں یا کم از کم انگریزی خبریں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
دنیا آپ سے ایک کلک کی دوری پہ ہے اور زبان آپ کی پہنچ میں، مسئلہ صرف وہی ہے کہ اس دنیا تک پہنچنے کے لیے ’کلک‘ کرنا پڑے گا، ’Enter‘ کا ’بٹن‘ دبانا پڑے گا، کوئی ’ایپ ڈاؤن لوڈ‘ کرنا پڑے گی یا کم از کم کھل جا سم سم بولنے کے لیے ’www‘ تو ’ٹائپ‘ کرنا ہی پڑے گا!