'یار مجھے لڑکیوں کے نام بھول جاتے ہیں، میں نے کاغذ پہ لکھ کر رکھے ہوئے تھے، وہ گم ہو گیا، آپ کو اس لڑکی کا نام پتہ ہے یہ جو سامنے بیٹھی ہوئی ہے؟ اور وہ کہاں ہوتی ہے آج کل، کیا تھا اس کا نام، جو کہتی تھی اسے مجھ سے محبت ہے؟'
ایسے انسان کا تصور کریں جسے زندگی میں کوئی کام نہ ہو، نہ اسے نوکری کرنی ہو، نہ کاروبار، نہ اس نے شادی کی ہو نہ ارادہ ہو، بس ایک کام ہو اور وہ کرتا جائے، کرتا جائے کرتا جائے یہاں تک کہ وہ اسی برس کا ہو جائے۔ اور وہ کام کتاب پڑھنا ہو۔
جب کبھی کتابوں سے جی بھر جائے تو جا کر دوستوں میں جا بیٹھے اور جو وہاں سے اکتائے تو واپس کتابوں میں جا گھسے۔ فرصت اتنی کہ کم و بیش ایک صدی ایسے ہی گزار دے اور مصروف ایسا کہ اس تمام عرصے میں دو باریک سی کتابیں شاعری کی آئیں لیکن پھر اس بندے کی آنکھیں پڑھنے سے بھی انکاری ہو جائیں۔
کمال کیریکٹر تھے۔ موت ڈار صاحب کو بھول چکی تھی۔ وہ اگر بیس سال پہلے مر جاتے تو اس وقت کئی بڑے نام ان کی یاد میں تحریروں کے انبار کھڑے کر دیتے۔ ڈار صاحب اب فوت ہوئے ہیں جب نوحہ گر ہی کوئی نہیں بچا۔ انتظار حسین ہوتے تو وہ اکیلے کافی تھے۔
یہ جو پہلی دو لائنیں ہیں، یہ آخری برسوں میں ان کا مسئلہ تھا۔ ریڈنگز میں بیٹھے ہوتے، دو تین لڑکیاں واقعی ایسی تھیں جو ان کا بہت خیال رکھتیں۔ وہ اب نام بھول جایا کرتے تھے۔ اگر کسی کو پتہ ہوتا کہ وہ زاہد ڈار ہیں اور وہ شوق میں ان کی ٹیبل پر بیٹھ جاتی تو ہم سب کان دبائے بیٹھے ہوتے کہ مالک، ڈار صاحب کچھ الٹا نہ بول جائیں۔
ایک دن فریش موڈ میں بیٹھے تھے تو پوچھ لیا کہ ڈار صاحب، کوئی تو عورت ہو گی آخر زندگی میں، کہنے لگے 'ایک دور تھا جب میں اپنے بارے میں بہت زیادہ لاپرواہ ہو گیا تھا۔
’پینا پلانا شام سے شروع ہوتا، رات پڑتی تو کہیں بھی سو جاتا، ہو سکتا ہے ان دنوں میں مر جاتا۔ ویسے میں بھی تبھی مر جاتا تو اچھا ہوتا۔ مجھے ایک عورت نے باہر نکالا تھا ان حالات سے ۔۔۔'
ڈار صاحب وہی عورت جو آپ کی کتاب تنہائی میں ہے؟ یار عورت تو ایک ہی ہوتی ہے۔ ہر جگہ ایک ہی عورت ہے، وہ بھی ایک ہی تھی۔ تو وہ عورت چوں کہ مجھے زندگی کی طرف لائی تو میں زیادہ دلچسپی لینے لگا، ورنہ میں مر کھپ جاتا کب کا۔'
لیکن مجال ہے ان خاتون کا نام کبھی زبان پر آیا ہو ڈار صاحب کی! آپ ویسے جانتے ہوں، ان کا ذکر کریں تو بڑے نارمل انداز میں جواب دیتے تھے، خود اس معاملے پر جتنا بھی کھلتے نام لیے بغیر بات کرتے۔
ایک دن دوبارہ یہ موضوع چھڑا تو کہنے لگے 'شادی کا بہت بار سوچا، پہلے تو اسی لڑکی سے کرنا چاہتا تھا جس نے میری زندگی بچائی، لیکن وہ مانتی نہیں تھی۔ وہ کہتی تھی تم کوئی کام دھندہ تو کرتے نہیں ہو، فارغ آدمی سے کیسے شادی کر لوں؟ بیس سال تو میں نے اس کے پیچھے لگا دئیے۔ پھر جب وہ لاہور سے چلی گئی تو میں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔
’بعد میں بھی لڑکیاں پسند آتی تھیں لیکن سب یہی کہتیں کہ تم کام نہیں کرتے تو ہم شادی کیسے کر لیں تم سے؟ میں تو بیمار ہو کے ہسپتال جاتا تھا تو وہاں نرسوں سے بھی عشق کر لیتا تھا لیکن جب انہیں پتہ چلتا کہ میں کچھ کرتا ہی نہیں ہوں تو وہ بھی دور بھاگ جاتی تھیں۔
’مجھے بڑے لوگوں نے پوچھا کہ یار تمہیں کوئی ایسی عورت نہیں ملی جو تمہارا خرچہ بھی اٹھا لیتی اور تمہیں ساتھ بھی رکھتی، تو میں یہی کہتا ہوں کہ نہیں ملی، اب کیا کروں؟
’مجھ سے میری بہن بھی بہت پوچھتی تھیں کہ تم نے کوئی کام وغیرہ نہیں کرنا، اتنا بہت سا اور ہر وقت پڑھ کے کیا کرو گے، تو میں انہیں کہتا تھا کہ یا شاعر بن جاؤں گا یا پاگل بن جاؤں گا۔
’ابھی دو چار دن پہلے ان کا فون آیا تو یہی کہہ رہی تھیں کہ تم نے 'یا' کا لفظ جو استعمال کیا اسی لیے نہ پورے شاعر بن سکے نہ تم پاگل ہوئے۔
'یہ گولیاں دیکھیں ذرا، ان سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا؟ یہ ڈاکٹر نے مجھے دی تھیں پیٹ ٹھیک رکھنے کے لیے، اس نے کہا تھا ہر کھانے کے بعد کھانی ہیں، تو بس میں کھا لیتا ہوں۔' ڈار صاحب کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ گولیاں تھیں۔ دن میں پورا پورا پتہ کھا لیتے مگر ان کا شک دور نہیں ہوتا تھا۔
یہ عادت، روزانہ موٹیلیم کھانے کی عادت، کم از کم پینتیس چالیس برس کا معمول تھا جو ان کی وفات سے ایک سال پہلے تک جاری رہا۔ کرونا کے بعد میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک تو میں بھی اسلام آباد آ گیا اور دوسرا اگر کبھی جاتا بھی تو اس خیال سے کہ انہیں نہ کچھ ہو جائے، ملنے سے رکا رہتا۔
ڈار صاحب جذبات پروف آدمی تھے۔ میں نے انہیں کبھی روتے ہوئے، تکلیف میں یا غصے میں نہیں دیکھا۔ ان سے میری ملاقات ریڈنگز (گلبرگ مین بلیوارڈ لاہور پر کتابوں کی دکان) میں ہی ہوتی تھی۔
بلکہ گھنٹوں لمبی ملاقاتیں۔ وہ صرف ایک صاحب سے چڑتے تھے۔ جیسے ہی وہ ریڈنگز کیفے میں گھستے ڈار صاحب سگریٹ پینے کے بہانے باہر نکل جاتے۔
پچاسی چھیاسی سال کی عمر میں کرسی چھوڑ کے پوری دکان کراس کرنا اور سڑک پہ جانا آسان نہیں ہوتا، وہ چلے جاتے تھے۔
'بڑا ٹیکا ہوتا تھا میرا، ٹی ہاؤس میں اپنی میز پہ میں کسی کو بیٹھنے نہیں تھا دیتا، بس میرے دوست بیٹھ سکتے تھے۔ میں کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ کوئی بھی کتاب، کسی بھی موضوع پر، مجھے پڑھنا پسند تھا۔ اب تو آنکھیں کام ہی نہیں کرتیں۔ چھوڑ دیا ہے پڑھنا۔ پڑھا ہی نہیں جاتا۔ یہاں آ جاتا ہوں، رات کو واپس چلا جاتا ہوں۔'
انتظار صاحب نے تیس، پینتیس سال پہلے لکھا تھا 'اور یہ جو عین وسط کی میز پر ایک شخص اٹنگا سا پائجامہ اور قمیص پہنے اکیلا بیٹھا ہے اور آنکھوں سے کتاب لگا رکھی ہے۔
وہ بھلا زاہد ڈار کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ سخت اکل کھرا۔ گنے چنے دوستوں کے سوا کوئی مخلوق میز پر آن بیٹھے تو اسے فورا اٹھا دیتا ہے، وہ نہ اٹھے تو خود اٹھ جاتا ہے، باہر جا کر فٹ پاتھ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ کب وہ میز سے ٹلے اور وہ واپس جا کر اپنی نشست سنبھالے۔'
ڈار صاحب آخری وقت تک ایسے تھے۔ جو ایک بار پسند نہیں آیا، بس پھر نہیں آیا۔ ’میں جو ہر وقت کتابیں رسالے پڑھا کرتا تھا اور لوگوں کو پڑھ کے دے بھی دیتا تھا تو وہ سب بڑے حیران ہوتے تھے کہ یہ نوکری وغیرہ تو کرتا نہیں ہے پھر اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے یہ سی آئی ڈی کا بندہ ہے، باقاعدہ یہ بات مشہور کر دی تھی انہوں نے۔‘
’مجھے تو اس وقت بھی میرا بڑا بھائی اور بہن پالتے تھے، آج بھی اس بڑھاپے میں وہی لوگ مجھے پالتے ہیں۔ وہ دونوں میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بہن ہر دوسرے دن لندن سے فون کرتی ہیں۔ پریشان رہتی ہیں۔ بھائی بھی جتنا ممکن ہو مجھے پیسے دیتا ہے۔'
ڈار صاحب آسانی سے دوست بنتے بھی نہیں تھے۔ دو سال تو انہیں بس میں دور سے دیکھتا تھا اور کسی دوسری میز پہ بیٹھ جاتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ انہیں لگا کہ یار یہ بندہ ٹھیک ہی ہے، تو بس دوستی ہو گئی۔
'یہ دیکھو، موبی ڈک، یہ میرا فیورٹ ناول ہے اور ایک اور تھا، ہاں یہ رہا، ڈان کے خوتے، یہ اسپینیش ناول تھا، کیا زبردست کتاب تھی۔ ایک اور ناول تھا، وہ رشین تھا، اوبلوموو، اس پر تو انتظار حسین نے کہیں لکھ بھی دیا تھا میرے بارے میں، زاہد ڈار اور اوبلوموو، شاید اس کی پہلی کتاب جو ایسے خاکوں ، یا کالموں کی تھی، اس میں لکھا ہو گا۔'
ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے لکھا کیوں نہیں ڈار صاحب؟ کوئی یادیں کوئی آپ بیتی ہوتی آپ کی، کوئی افسانے، ناول، کچھ تو ہوتا۔ کہنے لگے 'ہاں میں بہت عرصے تک ڈائری لکھتا رہا، رف کاپیاں جو بچوں کی ہوتی ہیں، وہ لے آتا تھا، ایک صفحہ روز کا لکھ دیتا تھا۔
’جب ایک کاپی بھر جاتی تو اسے کتابوں میں پھینک دیتا اور دوسری کاپی لے آتا۔ چالیس پچاس کاپیاں تو لکھی ہوں گی۔ پھر ایک بار میں نے لکھنے کے بعد پچھلا صفحہ کھولا، پھر اس سے پچھلا صفحہ کھولا پھر ایک اور پرانی کاپی کھولی تو مجھے لگا ہر صفحے پر وہی کچھ لکھا ہے جو آج کی ڈائری تھی۔
’میں ہر روز وہی زندگی کرتا تھا تو پھر اسے بھی لکھ کر پھینک دیا بس، بہت بار بہت لوگوں نے کہا چھپواؤ، لیکن اس میں ہے ہی کیا جو چھپوایا جائے۔'
پھر لاپروائی سے کہنے لگے ’وہ جہاں دوسری کتابوں کے ساتھ رکھیں ہیں مجھے یقین ہے انہیں دیمک کھا رہی ہو گی یا کھا چکی ہو گی، وہیں پھینک دیتا تھا ان کاپیوں کو، مجھے کئی لڑکے لڑکیوں نے کہا کہ ہم جا کر وہ ڈھونڈ لاتے ہیں اس کمرے سے، لیکن میں نے کسی کو کبھی جانے ہی نہیں دیا، آپ کو بھی نہیں جانے دوں گا وہاں۔‘
(وہ ڈائریاں بعد میں باقر علی شاہ صاحب نے کسی کتب فروش کے یہاں دریافت کیں اور انہیں خرید لیا۔ عنقریب ان کی اشاعت بھی متوقع ہے۔)
کتاب پڑھنے کا وہ کہتے تھے کہ 'چوتھی جماعت میں تھا، ذرا بیمار ہوا تو سکول سے چھٹی کی اور گھر بیٹھا بستر میں آرام کرنے لگا، بڑے بھائی نے وقت گزارنے کے لیے کوئی کتاب لا کر دے دی، بس وہ میری پہلی کتاب تھی، اس کے بعد تو ساری زندگی پڑھتا رہا۔ جو کتاب سامنے آئی پڑھ ڈالی۔'
پاکستان بننے کے بعد لدھیانے سے یہاں آ گئے، وہ بھی یوں ہوا کہ جالندھر میں سکھوں کو مسلمانوں نے کاٹا پیٹا تو لدھیانے میں سکھ لسٹیں تیار کرنے لگے کہ مسلماناں دے کیہڑے جی پھڑکانے نیں۔ ڈار صاحب کے دوستوں میں بہت سے ہندو اور سکھ دوست بھی تھے۔
انہوں نے سمجھا دیا کہ بھیا اب نکل جاؤ، یہ دوسروں کے ساتھ ٹرک پر بیٹھے اور ادھر آ گئے۔
ایف اے میں تھے تو پڑھائی چھوڑ دی اور 'آوارہ گردوں کے ٹولے سے جڑ گئے۔' کہنے لگے 'چند راتیں میرے حصے میں بھی آ گئیں جب میں ان لوگوں کے گروپ میں آیا۔ میں انتظار سے دس برس چھوٹا تھا، ناصر کاظمی سے بیس برس کا فرق تھا۔
’تو یہ لوگ مجھ سے پہلے بہت سی راتیں اور آوارہ گردی گزار چکے تھے۔ میں اس دور کے بالکل آخر میں آیا۔ میرا اور ناصر کا گھر بھی کرشن نگر میں ہوتا تھا تو واپسی پر اکثر ہم دونوں اکٹھے آتے تھے۔
’رات ہم لوگ ہوٹلوں میں کاٹتے تھے، ایک ایک کر کے جب تمام ہوٹل بند ہو جاتے تو کبھی بسوں کے اڈے پر بیٹھ جاتے کبھی پیدل چل پڑتے۔ ایک تانگے والا انتظار اور ناصر کا عاشق تھا۔ کبھی کبھی وہ بھی رات کو انہیں تانگے پر گھماتا رہتا تھا۔ ناصر پھر گیارہ بارہ بجے اٹھ کر دفتر چلا جاتا تھا۔
’زرعی بینک کے رسالے کا ایڈیٹر تھا، وہاں وقت کی پابندی تو ایسی کوئی تھی نہیں، تو جب دل چاہتا ہو آتا۔ اس کی بیوی بہت باہمت عورت تھیں۔ بچوں کو زیادہ تو انہوں نے ہی پالا۔ اس کے بچوں نے بہت محنت کی، اپنا مقام بنایا اور ناصر کی چیزیں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر چھپوائیں۔'
'پھر فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق ہوتا تھا مجھے، ان دنوں لاہور میں تین چار سینیما ہوتے تھے۔ جب ان کے ساتھ نہ ہوتا تو میری ہر رات کسی نہ کسی سینیما میں گزرتی تھی۔ سب سے سستا ٹکٹ بارہ آنے والا ہوتا تھا۔
’وہ لے کر بیٹھ جاتا تھا۔ اور فلم دیکھنے کے بعد پیدل واپس جاتا تھا کرشن نگر۔ اب اتنے ہی پیسے ہوتے تھے کہ یا کرایہ دے دو واپسی کا یا فلم دیکھ لو، تو میں فلم دیکھ لیتا تھا۔ اب بھی دیکھتا ہوں کبھی کبھار۔ دوستوں کے یہاں جاتا ہوں تو وہ ٹی وی پر دکھا دیتے ہیں۔ آرٹ فلمیں ہی دیکھتا ہوں۔'
زاہد ڈار انٹرویو دینے اور تصویر کھنچوانے سے ایسے بھاگتے تھے کہ جیسے کوئی بچہ پڑھائی سے بھاگتا ہو گا، بڑی مشکل سے جب انہیں میرے ساتھ مکمل گپ شک کے بعد یقین ہو گیا کہ میں بیبا بندہ ہوں، تب انہوں نے مجھے اپنی تصویریں کھینچنے کی اجازت دی تھی۔ سائیڈ پوز دیتے تھے زیادہ تر، سائیڈ پوز میں وہ اچھے لگتے تھے اپنے آپ کو۔
ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے میں ساٹھ ستر کی دہائی میں ہوں اور سارا پاک ٹی ہاؤس میرے ساتھ بیٹھا ہے۔ ایک بار شاکر علی کو یاد کر رہے تھے کافی دیر تک، مجھے حیرت ہوئی کہ ان کی شہرت تو ایک خاموش سے آدمی کی تھی، ان کی بنتی کیسے ہو گی ڈار صاحب کے ساتھ، پوچھا، شاکر علی کچھ بات کرتے تھے یا ایسے ہی چپ بیٹھے رہتے تھے؟
ہنسنے لگے، بولے، 'وہ تو کبھی بھی بات نہیں کرتا تھا۔ بالکل ہی چپ رہتا تھا۔ دوستوں میں بیٹھتا تو بس سننے کے لیے، بات کرتے اسے کم ہی دیکھا ہو گا۔
پہلے تو کچھ نہ کچھ تصویروں میں بنا ہی دیتا تھا، آخری دور میں تو بس لمبا سا کینوس ہوتا تھا، بالکل خالی، اوپر کہیں ایک دو کبوتر نظر آ جاتے تھے، میں بہت ہنستا تھا۔ دیکھ کر کہتا تھا کہ یہ کیا تم لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہو؟ وہ بمبئی سے کراچی اور وہاں سے لاہور آیا تھا۔
’شاید این سی اے کا پرنسپل بننے پر آیا تھا۔ بہت اچھا وقت گزرا اس کے ساتھ۔ وہ بہت اداس رہتا تھا۔ اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی، جب ہم اکیلے ہوتے تھے تو وہ بہت روتا تھا، وہ مجھ سے پوچھتا تھا، یار تم کیسے گزارا کرتے ہو، تمہاری زندگی میں تو کوئی عورت ہی نہیں، میں تو ساٹھ سے اوپر کا ہو گیا، آج بھی نہیں رہ سکتا۔ میں کہتا تھا بھئی میرا گزارہ تو ہو جاتا ہے۔
’جب اس کا مکان بن رہا تھا تو نیر علی دادا میں اور وہ ہم لوگ دوپہر کو وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اسے بہت شوق تھا کہ آرٹ کا نمونہ ہو وہ گھر، اس زمانے میں کہ ابھی وہ بن رہا تھا تو لوگ کہاں کہاں سے اسے دیکھنے آتے تھے۔
’لوگ حیران ہوتے تھے کہ جو اینٹ جلی ہوتی ہے، جسے ہم ضائع کر دیتے ہیں، اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ اکٹھا کرتا ہے اور ان اینٹوں سے مکان بنا رہا ہے۔ پھر وہ مکان بن گیا۔'
'وہ بہت ڈپریشن میں رہتا تھا۔ عبدالرحمن چغتائی کے مرنے پر ایک تعزیتی جلسہ ہوا تو شاکر کو اس کی صدارت کرنی تھی اور کچھ بولنا بھی تھا۔ میں کشور اور یوسف گئے وہ اپنے نئے گھر کے واحد کمرے میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ شدید اداس تھا۔
کہنے لگا مجھے نہیں جانا، چغتائی مر گیا ہے ایسے ہی میں بھی مر جاؤں گا بس، وہاں جا کر کیا کہوں گا میں ۔۔۔ ہم لوگوں نے زبردستی اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور وہاں لے جا کر بٹھا دیا۔
’وہ کچھ تقریر کر کے آ گیا۔ اگلے ہفتے ہم دونوں کہیں بیٹھے تھے تو اس نے یوسف کامران سے کہا کہ یار مجھے گھر لے جاؤ اپنے، کشور سے کہو کچھ اچھا کھانے کو بنائے۔
’یوسف فون کرنے گیا، ہم دونوں حسب معمول چپ بیٹھے تھے کہ اچانک میں دیکھا اس کا سر آہستہ سے گر رہا ہے اور یہاں تک آ گیا، صوفے تک، وہ بے ہوش تھا اور گیلا سا لگ رہا تھا۔ میں نے شور مچا دیا کہ اسے ہسپتال لے کر جاؤ۔ ہم لوگ اسے یو سی ایچ میں لے گئے۔'
'وہ اگر وہیں رہتا تو شاید بچ جاتا۔ رامے ان دنوں وزیر تھا۔ اس نے اپنے پیار میں اسے وہاں سے میو ہسپتال منتقل کروا دیا۔ اب وہاں میرا کوئی جاننے والا ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔
’میں اگلے دن صبح گیا تو اس نے ہلکے سے ہاتھ کو جنبش دی۔ ڈاکٹر بہت حیران ہوا، کہنے لگا آپ کون ہیں بھئی، یہ تو اب تک کسی کو دیکھ کر کوئی بھی رسپانس نہیں دے رہے، آپ کو دیکھ کر ہاتھ ملانا چاہ رہے ہیں، میں نے کہا بس ایسا ہی ہے۔ دوست ہوں۔ '
'وہ ایک ڈیڑھ ہفتے رہا ہسپتال میں۔ بات چیت یا ہلنا جلنا تو ہوتا نہیں تھا۔ خاموش پڑا رہتا تھا۔ ویسے ہی مر گیا۔ یوسف کامران بھی گیا تھا کسی امریکی کمپنی میں، جو تیل نکالتی تھی، اس کی بھی لاش آئی وہاں سے، وہ بھی مر گیا۔ '
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'شاکر تو لوگوں کو مفت بنا بنا کر بھی تصویریں بہت دے دیتا تھا۔ دوستوں کے گھروں میں اس کی بہت سی تصویریں تھیں۔ ایک دن میں نے کہا یار تم جو میرے اتنے اچھے دوست ہو، مجھے کچھ بنا کر کیوں نہیں دیتے۔ کہنے لگا تم کیا اپنے گلے میں لٹکاؤ گے۔ میں بہت ہنسا، ٹھیک ہی تو کہتا تھا، پہلے گھر بناؤں تو اس میں تصویریں بھی ٹانگوں۔'
امانت علی، صادقین، انتظار حسین، انور جلال شمزہ، اے حمید، صادقین، شاکر علی، چغتائی، ناصر کاظمی، یوسف کامران، کشور ناہید، مصطفی زیدی، مسعود اشعر، اکرام اللہ، شاہد حمید، م ح لطیفی، انیس ناگی، نفیس خلیلی اور نہ جانے کس کس کا ذکر کرتے تھے وہ اپنی باتوں کے درمیان، ایسے ہی روٹین میں۔
اتنے بڑے لوگوں کے ساتھی زاہد ڈار اب ریڈنگز آتے تھے تو مجھ جیسوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ دلاور، رخسار، ثمریز، عمیر غنی، آمنہ یاسین، رمشا، صابر، نتاشہ، تنزیلہ یا کوئی بھی ہوتا تو وہ ان سے بات کر لیتے، چائے پیتے رہتے۔ ہاں محمود الحسن، اکرام اللہ یا شاہد صاحب کبھی شام میں پہنچتے تو ڈار صاحب کی محفل سج جاتی۔
آج بہرحال ڈار صاحب رخصت ہو گئے۔ میں مطمئن ہوں۔ کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کتابیں اپنے آخری عاشق سے محروم ہو گئیں۔ کاغذوں کا نوحہ لفظوں کے سپرد، ڈار صاحب، تسی یاد آؤ گے!
(یہ تحریر فروری 2021 میں زاہد ڈار کے انتقال پر پہلی مرتبہ شائع کی گئی۔)
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔