ضیا محی الدین بہ زبان مشتاق احمد یوسفی 

مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہوں، موضوع ضیا صاحب ہوں تو اس کے بعد کیا بچتا ہے۔ فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر کچھ ایسا نہیں جسے پڑھ کر ایک حقیر فقیر سا ٹریبیوٹ ضیا صاحب اور خود یوسفی صاحب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

ضیا محی الدین کی وفات پر میں خاموش تھا۔ کیا کہا جائے، کیا لکھا جائے، مجھ جیسے تھڑے باز لکھنے والے کو ان کے شایان شان لفظ ہی نہیں مل پائے۔

بھائی مبشر زیدی نے چند صفحے دنیا زاد کے شمارہ 37 میں سے اپنے فیس بک گروپ پر شیئر کیے جن میں یہ مضمون بھی موجود تھا۔

مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہوں، موضوع ضیا صاحب ہوں تو اس کے بعد کیا بچتا ہے۔

فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر کچھ ایسا نہیں جسے پڑھ کر ایک حقیر فقیر سا ٹریبیوٹ ضیا صاحب اور خود یوسفی صاحب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

اگلا مرحلہ اقتباسات چننے کا تھا۔ کتنی سرخروئی ہوئی، پڑھیے، سنیے اور بتا دیجیے۔

ضیا محی الدین اور لفظ کا ٹھاٹ
مشتاق احمد یوسفی (اقتباسات)

’ادھر چند برسوں سے ضیا محی الدین ہر سال مختلف تصانیف سے چیدہ چیدہ اقتباسات پڑھتے ہیں اور ڈھیروں داد وصول کرتے ہیں۔ یہ ارمغانِ فرنگ وطنِ عزیز بھی لے کر جاتے ہیں۔ بحمد اللہ، اب اس تقریب دل پذیر نے سالانہ جشن کی سی صورت اختیار کر لی ہے۔ شُنید ہے، ان کی پڑھت (reading  اور recitation کا یہی مُرادف ذہن میں آتا ہے۔ جی چاہے تو بلند خوانی یا خواندگی کہیے) کے کیسٹ ہماری ان کتابوں سے زیادہ بکتے ہیں جن کے اقتباسات ان میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کا ذکر و اعتراف اس لیے بھی واجب ہو گیا کہ وہ اس عاجز کو بھی نوازتے رہتے ہیں۔ زرگزشت سے ایک اقتباس سن کر ہمارے ہمدم و ہمراز، مرزا عبدالودود بیگ ہماری پیٹھ تھپتھپا کر کہنے لگے کہ واللہ ضیا محی الدین نے تحریر میں جان ڈال دی۔

ان کے کمپلی مینٹ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہمیں کچھ اور گمان گزرا تو ہم نے کہا: ’مگر مرزا! جان تو مُردے میں ڈالی جاتی ہے۔‘

بولے ’اور کیا۔ ضیا محی الدین نے یہی تو کیا ہے۔ بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں۔‘

’یہ بات ہماری حد تک تو درست ہے، لیکن رتن ناتھ سرشار، چوہدری محمد علی ردولوی، فیض، ن م راشد اور پطرس کی تصانیف سے جو شہ پارے انہوں نے پڑھے ہیں وہ جہاں لکھنے والے کے کمال فن کا نمونہ ہیں، وہیں پڑھنے اور پیش کرنے والے کے حسنِ انتخاب، سخن فہمی، نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت، لفظ کا مزاج اور لہجہ اور لہجے کا ٹھاٹ پہچاننے کی صلاحیت کا صحیح معنوں میں منہ بولتا ثبوت ہیں۔

’وہ جملے کی بُنت اور بناوٹ ہی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ لفظ کے بناؤ اور سبھاؤ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی آواز اور اندازِ اظہار کی range بہت وسیع ہے۔ وہ نہ صرف تلخی، ترشی اور شیرینی کی مختلف سطحوں اور نزاکتوں سے واقف ہیں، بلکہ ان میں اپنے لہجے کا ذائقہ بھی شامل کرنا جانتے ہیں۔ ایک کامیاب اور نامور اداکار کی طرح کردار کی زبان ان کی زبان اور ہر لہجہ ان کا اپنا لہجہ بن جاتا ہے۔ تمام چہرے ہیں میرے چہرے، ہر ایک لہجہ ہے میرا لہجہ۔

’فیض صاحب کی نظمیں جس طرح ڈوب کر ضیا محی الدین نے پڑھی ہیں وہ نہ صرف ان کی عقیدت بلکہ ان کی نکتہ شناسی اور سخن سنجی کا ثبوت ہے جو بحمداللہ EMI نے کیسٹ کی شکل میں محفوظ کر لیا ہے۔ فیض صاحب کی شخصیت میں ایسی موہنی اور ان کے لہجے میں اتنا خلوص اور کھرا پن تھا اور ہم اس سے اس درجہ مانوس ہو گئے تھے کہ انہیں یہ احساس تک نہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے اشعار اس طرح پڑھتے تھے جیسے کسی جانی دشمن کا کلام ہو۔

’یہ اور بات کہ وہ کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ دو تین لفظوں کے بعد وہ ایک سسکی سی لے کر اپنے کلام میں ایک لذیذ سا سکتہ پیدا کرتے۔ سگریٹ کے رسیا تھے۔ وہ دستیاب نہ ہو تو لفظ کا کش ایسا لگاتے کہ سننے والے دُھت ہو ہو جاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’چند سال پہلے اسی ہال میں میں نے عرض کیا تھا کہ ’یہ فیض کے کلام کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنے کلام کو بگاڑ کر پڑھنے کی انتہائی کوشش کے باوجود ان کے چاہنے والوں کو یہ انداز ایسا بھایا کہ آخر کو یہی معیار ٹھہرا۔ ان کا اُکھڑا اُکھڑا انداز دیکھتے دیکھتے ایک فیشن بن گیا۔ فیض صاحب ’چین سموکر‘ تھے۔

’میرا مطلب ہے سگریٹ سے سگریٹ ہی نہیں، قالین بھی سلگاتے رہتے تھے۔ مصرع اور فقرہ کی سانس ٹوٹ ٹوٹ جاتی، وقفے وقفے سے ایک گھائل سی سسکی بھی سنائی دیتی اور سننے والوں کا پیار، سکوتِ سخن میں حلاوتیں گھولتا چلا جاتا۔ کسی کہنے والے نے ازراہ تفنن کہا بھی کہ فیض صاحب نے دراصل اپنے نقالوں کا خانہ مزید خراب کرنے کے لیے تحت اللفظ پڑھنے کی یہ طرز ایجاد کی ہے۔‘

’نثر پڑھنے کی روایت ہمارے ہاں بہت پرانی نہیں۔ داستان گوئی کو ہم پڑھت اور خوانندگی میں شمار نہیں کر سکتے۔ سب سے نامور داستان گو، میر باقر علی افیم کھا کر داستان کہتے تھے۔ ان کی ایک داستان کا متن، جو ان کے کسی مداح نے مرتب کیا تھا، ہم نے بھی پڑھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ استاد افیم ناحق کھاتے تھے۔ افیم تو سننے والوں کو کھانی چاہیے تھی۔

’اب جو نثر پڑھنے کا رواج چل پڑا ہے تو اس میں دو عیب پائے جاتے ہیں۔ اول تو سب، میری ہی طرح، صرف اپنی نثر پڑھتے ہیں۔ دوم، اس وضع داری کا التزام رکھتے ہیں کہ اول تا آخر Monotone میں پڑھیں۔ منصف مزاج سامعین یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ موصوف لکھتے زیادہ خراب ہیں یا پڑھتے زیادہ خراب ہیں۔

’البتہ چند صاحب طرز نثر نگار مونوٹون سے گریز کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنے انداز پر ایسے فریفتہ ہیں کہ اپنے ہر فقرے پر جھوم جھوم جاتے ہیں اور ایک ایک لفظ اس طرح ادا کرتے ہیں گویا ترپ کا پتّا پھینک رہے ہیں۔ ضیا محی الدین نے نثر پڑھنے کا جو انتہائی پُرتاثیر انداز اپنایا ہے اور خوانندگی کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے اس میں صرف ایک عیب ہے۔ وہ یہ کہ جس کسی نے نقالی میں ان کی طرح پڑھنے کی کوشش کی وہ مارا جائے گا۔ یہ راگ اور سنگھار، اور یہ ساز انہیں کو سجتا ہے۔

ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو

’وہ زبان کی صحت، لہجے اور تلفظ کی درستی اور کلیدی فقرے کی ادائیگی پر خاصا ریاض کرتے ہیں اور یہ ان کے فن کی پُرکاری ہے کہ وہ اپنے سامعین اور ناظرین کو اس کا ذرا احساس نہیں ہونے دیتے۔ وہ اس منزل سے آسان گزر جاتے ہیں۔ ورنہ ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو گفتگو میں ادبدا کر ایسے الفاظ ماورالنہری تلفظ کے ساتھ ڈھو ڈھو کر لاتے ہیں کہ انہیں سن کر ہم جیسے کم مایہ لوگ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم نے خود کو عالِم ہونے سے باز رکھا۔

’ہماری مراد ان حضرات سے ہے جو جِدوجُہد، وَرثه، زیادَتی، شِناخت، موسِم، سَمت کہہ کر الفاظ کے بدیسی ماخذ و مخرج سے اپنی واقفیت کا ثبوت ہر تیسرے جملے میں بہم پہنچاتے ہیں۔ وہ فارسی کے گاڑھے گاڑھے دودھ میں آمیزش نہیں ہونے دیتے۔ پانی تو درکنار، دیسی شکر تک ملانے کے روادار نہیں۔

’بیش تر اوقات تھن سے منہ لگا کر دودھ پیتے اور ہم جیسوں کو دولتّی مارتے رہتے ہیں۔ ایک براڈکاسٹر کو تو ہم نے مُحبت کو مَحَبّت کہتے بھی سنا۔ اپنے ماتحتوں سے بھی اسی طرح کہلواتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس تلفظ یعنی مَحَبّت کو مَحَبّت کہہ کر کوئی کچھ کرے تو یقین جانیے وہ ظالم محبت نہیں، کچھ اور کر رہا ہے۔

’ضیا محی الدین خاصے کی چیز کو عام آدمی تک پہنچانے کی اہمیت ہی کے نہیں، اس کے گُر سے بھی واقف ہیں۔ دوسروں کو سمجھانا، خود سمجھنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ ادبی شہ پاروں کے لیے قبول عام کی راہ ہموار کرنے میں انہوں نے جس طور پہل کی ہے وہ لائق صد ستائش ہے۔

’اس عمل میں جن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور دل میں بات اتارنے کے لیے جو بہروپ اور سانگ بھرنے پڑتے ہیں، ان پر وہ خلّاقانہ قدرت رکھتے ہیں۔

اہل معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی
بزم میں اہل نظر بھی ہیں تماشائی بھی

’ان کے ایک ادنیٰ مداح اور پُرشوق تماشائی کی حیثیت سے، اور آپ سب کی جانب سے میں ان کا شکر گزار ہوں کہ آج انہوں نے ہمیں ایسے فن کی جھلک دکھائی جو حسین کو حسین تر تو کرتا ہی ہے لیکن بعض اوقات سادہ کو بھی پُرکار بنا کے دکھا دیتا ہے۔ وہ فن اور وہ فنکار لائق صد احترام و ستائش ہے لازم دستائش ہے جو

حرف سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب