’میں نے برطانوی فوج کی جانیں بچائیں، وہ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟‘

برطانوی فوج کے لیے افغانستان میں خدمات سرانجام دینے والے 31 سالہ حفیظ اللہ حسین خیل 2014 میں وہاں سے فرار ہو کر برطانیہ گئے۔ طالبان قبضے کے بعد فرار ہونے پر ان کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

برطانوی مسلح افواج کا ایک رکن 28 اگست 2021 کو رائل ایئرفورس کے طیارے سے اترنے کے بعد (فائل تصویر: اے ایف پی)

برطانیہ نے ایک افغان شہری خاتون کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ہوم آفس نے ان افغان شہری کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہین دی جنہوں نے افغانستان میں برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا اور بطور ترجمان ان کی خدمات کو’شاندار‘الفاظ میں سراہا بھی گیا۔
ہوم آفس کے انکار کے بعد مذکورہ خاتون کو قتل کر دیے جانے کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد 2014 میں افغانستان سے فرار ہونے والے 31 سالہ حفیظ اللہ حسین خیل کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان قبضے کے بعد وہ اور ان کی اہلیہ کابل سے فرار ہو گئے جس کے بعد ان کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہیں’دھوکہ دیا گیا‘اور وہ خوفزدہ ہیں۔

ایک سابق فوجی افسر جو صوبہ ہلمند میں حسین خیل کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں’ٹیم کا ایک اہم رکن‘قرار دیتے ہیں، نے کہا کہ یہ انکار’برطانیہ کی جانب سے ظالمانہ عمل ہے۔‘

25 سالہ حسین خیل کی اہلیہ اور 61 سالہ والدہ جن کا وہ حفاظتی خدشات کی بنا پر نام نہیں لینا چاہتے، کابل سے فرار ہونے کے بعد جنوری 2022 سے اسلام آباد، پاکستان کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں۔

پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن ان کے قیام کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔ان کے والد جون 2021 میں کووڈ کی وجہ سے چل بسے تھے۔ ان کے بہن بھائی دوسرے مغربی ممالک میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

وزارت دفاع (ایم او ڈی) نے اکتوبر 2021 میں اشارہ دیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور والدہ افغان ری لوکیشن اسسٹنس پروگرام (اے آر اے پی) کے تحت ان سے ملنے کے لیے برطانیہ آ سکتی ہیں اس شرط پر کہ ہوم آفس ان کی ویزا درخواست منظور کر لے۔

تاہم ہوم آفس کی جانب سے یہ کیس قبول ہونے کے لیے کئی ماہ انتظار کے بعد انکار کی صورت میں سامنے آیا۔ جس میں کہا گیا کہ برطانیہ ’مطمئن نہیں ہے‘ کہ ان کا رشتہ’حقیقی اور برقرار‘ ہے۔

دی انڈپینڈنٹ سمجھتا ہے کہ ہوم آفس ان کی اہلیہ کے لیے اے آر اے پی درخواست پر غور نہیں کر رہا ہے، باوجود اس کے کہ وزارت دفاع نے انہیں قبول کر لیا ہے جب کہ ان کی والدہ کی درخواست ابھی زیر التوا ہے۔

ڈربی میں رہتے ہوئے ڈلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے حسین خیل کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اہلیہ اور والدہ جن کا پاکستان میں رہنے کا حق دو ماہ قبل ختم ہو چکا ہے، کو جلد ہی ہوٹل چھوڑنا پڑے گا جس کے بعد انہیں افغانستان بھیج دیا جائے گا جہاں انہیں موت کا خطرہ لاحق ہو گا۔

حسین خیل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ’انہیں آرام سے قتل کر دیا جائے گا کیوں کہ ان کے ساتھ جاسوسوں والا سلوک ہو گا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ میری ملازمت کی وجہ سے ہوٹل میں رہے ہیں۔ وہ طالبان کے لیے آسان ہدف ہوں گے۔‘

’مجھے بتایا گیا کہ وہ یہاں آنے کے اہل ہیں۔ میں صدمے میں ہوں۔ ہوم آفس یہ کیسے کر سکتا ہے؟ میں نے برطانوی افواج کی خدمت کی۔ میں نے جانیں بچائیں اور آج وہ میرے خاندان کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ کسی کو ان کی پروا نہیں ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی حفاظت کے معاملے میں مجھے دھوکہ دیا گیا اور میں خوف کا شکار ہوں۔‘

صوبہ ہلمند میں کپتان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے حسین خیل کے ساتھ کام کرنے والے سابق فوجی افسر پیٹر گورڈن فنلیسن نے کہتے ہیں کہ’حسین نے آپریشن ہیرک کے تحت مسلسل مہمات میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ کام کیا اور وہ کئی سال تک خاندان سے دور رہے۔ وہ ٹیم کے ایک لازمی اور اہم رکن تھے۔‘

’اپنے خاندان کے متعدد افراد کی موت کے بعد، ان کی اہلیہ ان چند مددگاروں میں سے ایک ہیں، جو ان کے پاس بچے ہیں۔ انہیں ایک ساتھ رہنے دینے کی سہولت سے انکار کرنا برطانیہ کی طرف سے خاص طور پر ظالمانہ عمل لگتا ہے جو ان کی ذہنی صحت کو نمایاں طور متاثر کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی فوج کی گھڑ سوار رجمنٹ کی طرف سے حسین خیل کو جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ، جسے دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا ہے، میں یہ الفاظ درج ہیں کہ’آپریشن ہیرک 14 اپریل تا نومبر 2011 کے دوران فارمیشن ریکونسنس سکواڈرن کے ترجمان کے طور پر ان کے نمایاں کردار کے اعتراف میں۔‘

حسین خیل اور ان کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والی وکیل سیلیا ریکرڈ نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ اور والدہ پاکستان میں مقیم ان بہت سے افغانوں میں شامل ہیں جو کئی ماہ سے ویزوں کی درخواست پر ہم آفس کی کارروائی کے منتظر ہیں۔ وکیل نے نے اس صورت حال کو’ناروا‘اور’گومگو‘پر مبنی قرار دیا ہے۔

’یہ التوا کا شکار ان لوگوں کے کیس ہیں۔ ہم بنیادی طور پر خواتین کی بات کر رہے ہیں جو برطانیہ کے ویزے کے بغیر پاکستان میں انتظار کر رہی ہیں۔ ان کی ملک میں قیام کی اجازت ختم ہو چکی ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے. میں کہوں گی کہ یہ انتشار کی بدترین حالت ہے۔‘
حسین خیل کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کا ذکر کرتے ہوئے ریکرڈ نے مزید کہا: ’وہ ان کی قریبی رشتہ دار ہیں۔ انہیں یہاں کیوں نہیں آنا چاہیے؟ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک سابق ترجمان برطانیہ میں اپنے قریبی رشتہ دار کو کیوں نہیں لا سکتے۔‘
ہوم آفس برطانیہ کے ترجمان کا موقف تھا کہ’ہم عام طور پر انفرادی معاملات پر بات نہیں کرتے۔ آپریشن پٹنگ کے دوران ہم نے 15 ہزار لوگوں کو کابل سے نکالا اور ہم محفوظ راستے کے حصول اور برطانوی شہریوں اور اہل افغانوں کے ملک چھوڑنے کے قابل بنانے کے لیے وہ سب کچھ کر رہے جو کر سکتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ